جیسے  ہی اس  موٹے شخص  نے  واش  روم  کا   درازہ  کھولا۔۔تو  ۔۔۔۔ مجھے اپنے  سامنے  دیکھ کر  وہ  حیران  رہ گیا کیونکہ   اتنے  نزدیک سے دیکھ  میں  نے اسے۔۔۔۔ اور اس نے  مجھے۔۔ پہچان لیا  تھا ۔۔۔وہ ۔۔۔وہ ۔اور کوئی نہیں  بلکہ ۔ شبی کے قاری  صاحب  تھے ۔جو  کہ اس کو  مدرسے میں پڑھایا  کرتے   تھے  دوسری بات یہ کہ  چونکہ ان قاری صاحب کے   ابا کے  ساتھ  بہت  اچھے تعلق  بلکہ  ہمارے ساتھ فیملی  ٹرم تھے  ۔۔۔۔ جیسے ہی ان کی نظر مجھ پر پڑی تو  وہ   غصے ۔۔۔ حیرت اور صدمے سے کنگ ہو کر  رہ  گئے۔۔۔ اور  کچھ  دیر  تک تو  وہ    مجھے منہ کھولے   بڑی بے یقینی کے ساتھ  مجھے  دیکھتے    رہے  ۔۔پھر اگلے  ہی لمحے ان کے منہ ایک موٹی سی گالی نکلی  اور وہ میری طرف دیکھ کر غرائے ۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ تیری ماں نوں لن۔۔۔توں ایتھے کتھے ؟؟؟( تیری ماں کو لن ماروں تم یہاں کیسے؟)۔۔۔ جبکہ دوسری طرف قاری صاحب کو دیکھ کر میں   بڑی  سخت شرمندگی  محسوس کر رہی تھی اور اس  وقت  میرا   جی   چاہ  رہا  تھا کہ زمین  پھٹ  جائے  اور  میں اس میں سما جاؤں۔۔۔۔۔   لیکن ۔۔۔ یہ  وقت   ایسی  باتوں  کا   نہ تھا   کیونکہ اس  وقت میری جان پر بنی ہوئی تھی ۔۔۔ دوسری  بات  یہ کہ  قاری  صاحب کو  دیکھ کر  اچانک  ہی  مجھے  اس  بات کا   شدت  سے احساس ہوا کہ ایسا  نہ ہو کہ یہ مجھے ۔۔۔ اس سے آگے میں نہ سوچ سکی ۔۔ اس لیئے میں نے قاری صاحب کی طرف دیکھا اور  بڑی بے بسی کے ساتھ اپنے  دونوں ہاتھ جوڑ کر ان کے سامنے کھڑی ہو گئی شرمندگی کے  مارے  میری آنکھوں  سے آنسوؤں  کی جھڑی لگ گئی تھی اور میں  روتے  ہوئے  ان سے مسلسل ایک ہی بات کہہ رہی تھی کہ قاری صاحب  مجھے  بچاؤ ۔۔۔۔  ۔۔۔مجھے معاف کر دو ۔۔ پلیززز۔۔ مجھے معاف کر دو۔۔۔۔  میں قاری صاحب کے سامنے جن کا  نام قاری   شفیق راشدی  تھا اور  جنہیں سب  راشدی  صاحب    کہتے تھے  کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑی تھی اور  میری آنکھوں سے  آنسوؤں کی نہریں جاری تھیں ۔ ۔۔۔مجھے ۔۔یوں  بے بسی سے روتے دیکھ کر ان کے چہرے پر  ۔۔۔ ۔۔ قاری صاحب کے چہرے پر  بتدریج    نرمی کے آثار  پیدا  ہو نے شروع  ہو  گئے   اور   انہوں  نے قدرے  ڈانٹ کر   بس اتنا کہا کہ  ۔۔ماں  یاویئے  چُپ کر ۔۔( ۔۔ چُپ کرو۔۔ مادر چود) ۔۔۔ اور پھر آہستہ  سے بولے جب تک میں  نہ کہوں تم نے ادھر سے باہر نہیں نکلنا ۔۔اور پھر انہوں نے  اپنا  منہ   باہر کی طرف کیا اور کہنے لگی ۔۔۔۔  مولانا  ۔۔۔واش روم  خالی  ہے ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی  وہ   دم لینے کے لیئے  واش روم کے دروازے  میں   ہی بیٹھ گئے اور  گہرے گہرے سانس  لینے لگے۔۔۔   ادھر واش  رو م  میں  بیٹھے بیٹھے    اچانک ہی مجھے اپنے سکول  بیگ کا خیال آ گیا۔۔۔ اور میں نے پھنسی پھنسی آواز میں قاری  صاحب کو آواز دیتے  ہوئے  کہا کہ۔۔ قاری  صاحب ۔۔۔ تو  وہ  وہیں  پر بیٹھے بیٹھے کہنے  لگے  ۔۔۔  کیا  بات  ہے ؟  تو میں نے  شرمندگی سے کہا کہ وہ میرا سکول  بیگ۔۔۔ ابھی میں نے  اتنا  ہی کہا تھا  وہ  ساری  بات سمجھ کر بولے  ۔۔۔ اوہ ۔۔تیرا  بھلا  ہو جائے۔۔ کہاں  رکھا ہے تیرا  بیگ؟ ۔۔۔ تو  میں نے  ان سے کہا کہ شیڈ کے   دوسرے کمرے میں ۔۔۔ میری  بات سنتے  ہی  وہ   اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے  ہوئے  اور     پیچھے  مُڑے  بغیر  ہی  کہنے لگے  ۔۔ کس  رنگ  کا  ہے ؟تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ  مہرون  ۔۔۔۔۔۔  میری بات سن کر  وہ  جاتے ہوئے بولے  دعا کر و کہ اس پر کسی کی نظر  نہ  پڑی  ہو ۔۔۔ اور پھر وہاں  سے  بھاگتے  ہوئے  چلے گئے ان کے جانے کے بعد میں  دروازے  کے پیچھے کھڑی  ہو گئی ۔ لیکن میرے  کان   باہر کی طرف ہی  لگے ہوئے تھے جہاں ایک قیامت  کا  شور  برپا  تھا ۔۔۔۔ اور  میرا خیال ہے انہوں نے  زرینہ اور  اس کے یار کو حالتِ غیر میں  پکڑ  لیا تھا ۔۔۔   کیونکہ   مجھے ایک  بھاری بھر کم آواز سنائی دی ۔۔۔ ۔۔کہ   بچی  نوں   شلوار  پوا   دو ( بچی کو شلوار پہنا دو)  اور اس کے ساتھ ہی  مسلسل  دھپ دھپ کی آوازوں کے ساتھ ساتھ غلیظ قسم کی گالیاں بھی میرے  کانوں میں گونج رہیں تھیں ۔۔۔  اب میں نے تھوڑا آگے بڑھ کر دیکھا  تو   وہ لوگ  اظہر اور  زرینہ کے یار کو  حسبِ توفیق گالیاں دینے کے ساتھ   مارتے  بھی  جا  رہے تھے ۔۔اتنے میں اسی بھاری بھر کم آواز نے دوبارہ سے کہا کہ۔۔  بس کرو منڈیو۔۔ہن انہوں نوں باہر لے جاؤ ( مارنا بس کرو اور  اب ان لڑکوں کو باہر لے جاؤ)  اس  وقت  میں نے  یہ آواز  پہچان  لی تھی   یہ آواز  ہمارے  علاقے کے  مولوی صاحب کی تھی جو کہ "اصلاحِ معاشرہ " نامی تنظیم کے سربراہ بھی تھے جس کے  میرے والد اور چچا  بڑے  سرگرم رُکن  تھے۔۔ اس تنظیم کا مقصد لوگوں کو برائی  سے   بچانا اور  ان کے بقول ان  کو اچھائی   کے راستے کی طرف  لانا  تھا۔۔۔
 

 پھر میں نے  دروازے کی اووڑھ  سے دیکھا تو   اصلاح ِمعاشرہ کے نیک لوگ  دونوں لڑکوں کو بری طرح سے   مارتے  ہوئے  اسی دیوار کی طرف لے جا  رہے تھے کہ جہاں سے ہم لوگ کودے   تھے جبکہ ان  کے پیچھے  پیچھے چلتے ہوئے  بڑے مولوی صاحب   نے بڑی   مضبوطی کے ساتھ    زرینہ کا  بازو  پکڑا  ہوا  تھا  اور اسے اپنے ساتھ چپکائے  وہ آہستہ آہستہ چل رہے تھے جبکہ زرینہ ۔۔ سر جھکا ئے  مرے ہوئے قدموں  سے  ان کا  ساتھ  دے  رہی تھی  ۔۔۔ یہ ہولناک منظر دیکھ کر میں نے اپنے  بچ جانے پر  شکر  ادا کیا۔۔۔۔ اسی اثنا  میں  ۔۔ میں نے قاری صاحب  کو دیکھا جو کہ واش روم کی طر ف آ رہے تھے ۔۔ جیسے ہی  وہ  واش روم کے پاس پہنچے  وہ    ادھر ادھر دیکھتے   ہوئے  بڑی  ہی  دھیمی  آواز میں کہنے  لگے ۔۔ ۔۔۔  خوش قسمتی سے تمہارا بیگ مل  گیا  تھا۔۔۔اور وہ  میں نے کمرے کے مشرق میں  پڑی گھاس نے  نیچے  دبا  دیا  ہے ۔۔۔  جاتی دفعہ لے جانا ۔۔تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔قاری صاحب اب میں کیا کروں ؟ تو  وہ  کہنے لگے  ابھی  معاملہ  بہت گرم  ہے تم یہاں ہی  دُبکی رہو ۔۔۔۔۔ہم  ان بچوں کو لیکر  بڑے مولانا کے  حجرے   کی طرف جا رہے ہیں ۔۔۔  پھر  کہنے لگے تم ایسا کرنا ۔۔ اب سے ٹھیک ایک گھنٹے کےبعد یہاں سے نکل جانا اور ہاں سیدھے راستے سے  گھر نہیں  جانا بلکہ   تھوڑا گھوم کر جانا۔۔ ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی   راشدی  صاحب  ادھر ادھر دیکھتے ہوئے    وہاں  سے  چلے  گئے۔۔۔

 ان کے جانے کے ایک گھنٹہ کی بجائے   دو  گھنٹے تک  میں    اسی واش روم میں دُبکی  رہی ۔۔۔ اور  پھر  جب  مجھے  اس بات کا  یقین ہو گیا کہ اب  وہ  لوگ بڑے مولوی  صاحب کے حجرے میں پہنچ  چکے ہوں گے ۔۔ تو میں  چپکے سے وہاں سے نکلی۔۔۔ اور بڑی مشکل سے  ادھر ادھر دیکھتی  ہوئی شیڈ  کے نیچے  اس کمرے میں پہنچی جہاں   گھاس  کے  نیچے  میرا  بیگ پڑا  تھا۔۔۔ میں نے  وہاں  سے اپنا  بیگ اُٹھایا  اور  پھر بڑے  محتاط طریقے سے  کمرے سے باہر جھانک کر دیکھا ۔۔تو آس پاس کوئی نہ تھا ۔۔۔ سارا ہسپتال سونا پڑا تھا۔۔۔۔۔۔ سو  میں بڑے محتاط   قدموں سے چلتی ہوئی   ہسپتال کی اسی ادھڑی ہوئی دیوار کے پاس پہنچی ۔۔۔  اور وہاں جا کر  دیوار کے ساتھ نیچے بیٹھ گئی۔۔۔ پھر  تھوڑی دیر بعد   پہلے اپنے  پیچھے  کی طرف  دیکھا ۔۔۔ کسی کو نہ پا کر ۔۔۔۔میں نے دھیرے دھیرے  اپنا سر اُٹھایا اور دیوار کے اوپر سے ادھر ادھر کے حالات کا جائزہ لیا ۔۔۔  دیکھا تو وہاں باہر بھی  سناٹے کا راج  تھا ۔۔۔  چنانچہ میں نے بڑی احتیاط ۔۔۔اور ڈرتے ڈرتے ہسپتال کی  دیوار  پھلانگی اور۔۔۔ پھر قاری صاحب کے بتائے ہوئے رستے  پر چل دی۔۔ لیکن  میں۔۔۔۔ابھی بھی  سخت  ڈری  ہوئی تھی ۔۔ اور  چلتے  ہوئے  ۔۔۔   بار بار  پیچھے  مُڑ کر دیکھ  لیتی  تھی کہ کوئی  میرے پیچھے تو نہیں آ  رہا ۔۔۔۔۔۔  پھر جب  میں نے  ہپستال کی حدود کراس  کی تو  اس  وقت  میرے اوسان  کچھ بحال ہوئے اور ۔۔۔ اس کے بعد میں تیز تیز چلتی ہوئی  گھر  پہنچ گئی۔۔۔ لیکن سارے  راستے میں  ایک انجان  سا دھڑکا  لگا   رہا    تھا   جس کی وجہ سے بچ  جانے کے باوجود بھی  میں سخت  پریشان تھی  -پھر   جیسے  ہی میں  اپنے گھر پہنچی تو  بھاگ کر  اپنے کمرے میں چلی  گئی اور  وہاں  جا کر چارپائی پر لیٹ گئی۔۔۔اس  وقت بھی مجھ پر سخت  کپکپی طاری تھی۔۔۔ اور میں بیدِ مجنوں کی طرح لرز  رہی تھی ۔۔۔ چارپائی پر  لیٹنے کے کچھ دیر بعد  تک تو میں ہوش میں رہی۔۔۔۔۔۔ پھرا س کے بعد  کا  مجھے نہیں  کچھ یاد نہیں کہ کیا  ہوا۔۔۔۔۔ ہاں رات  گئے  اس وقت میری آنکھ کھلی جب  شبی مجھے ہلا  رہا  تھا ۔۔ میں   اُٹھی  اور اس   کے  ہاتھ میں دودھ  کا  گلاس اور  گولی دیکھ کر بڑی حیران ہوئی ۔۔۔  اور اس سے   پوچھنے لگی کہ یہ کیا  ہے ؟ میری بات سن کر شبی کہنے لگا۔۔۔ کہ باجی آپ کو بڑا  سخت  بخار  چڑھا  ہوا  ہے۔ اس  لیئے  یہ  دوائی  کھا لیں ۔۔ میں نے  اس سے گولی  لی اور کھا کر پھر سو گئی ۔۔۔


       اگلی صبع   معمول کے مطابق میری آنکھ کھل گئی دیکھا تو شبی ابھی بھی سویا ہوا تھا۔۔۔ میں نے جلدی سے اسے اُٹھایا  اور   کچن کی طرف چلی گئی  اماں کے نہ ہونے کی وجہ سے صبع کا  ناشتہ  میں  ہی  بناتی تھی۔۔ ناشتے پر شبی نے   میرا  حال پوچھا اور پھر میرے ماتھے پر  ہاتھ  لگا کر بولا ۔۔۔ شکر ہے  باجی آپ کا  بخار اتر گیا ہے ۔۔ ۔۔  ناشتہ کرنے کے بعد شبی   اپنے  مدرسے  اور میں  عاشی کے ساتھ سکول چلی گئی۔۔۔ راستے میں عاشی نے مجھ  سے میرا حال دریافت کیاپھر کہنے لگی ۔۔۔  صبو  تم  تو  بخار  سے  بے ہوش پڑی  تھی لیکن کیا تم کو معلوم ہے کہ کل  تمہارے  پیچھے  ہمارے ٹاؤن میں کیا قیامت مچ  گئی  ہے تو  میں نے بڑی حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ کیوں   ایسا کیا  ہوگیا ہمارے ٹاؤن میں ؟ تو وہ  بڑے پُر  اسرار  لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔ وہ  تمہاری  دوست  ہے  نا زرینہ ؟  وہ  کل اپنے یار کے ساتھ  پکڑی  ہے۔۔۔ اس پر میں نے شدید حیرانی  کا  مظاہرہ  کرتے ہوئے کہا  وہ  کیسے؟ میری اس بات پر  اس  نے   مجھے  واقعہ کی تفصیل سناتے ہوئے کہا کہ  ہوا کچھ یوں کہ زرینہ اور اس کا  عاشق  اور ان کے ساتھ ایک اور لڑکا ۔۔۔ روز  ہی ہسپتال میں   جا کر رنگ رلیاں منایا کرتے تھے۔۔۔ کسی طرح اس بات کی   اطلاع  ہمارے ٹاؤن  کے اصلاحِ معاشرہ والے مولوی صاحب کو   ہو گئی ۔۔ جنہوں نے  مدرسے کے لڑکوں کی ڈیوٹی لگائی۔۔۔  اور پھر جیسے ہی  یہ لوگ عیش و عشرت کی خاطر   ہسپتال کے اندر داخل ہوئے تو  ان لڑکوں نے مولانا صاحب کو خبر کر دی اور  پھر  کچھ  ہی  دیر بعد  مولانا صاحب  نے  ٹاؤن  کے معززین کے ساتھ  ہسپتال پر چھاپہ  مارا  اور  وہاں سے دو لڑکے اور ایک لڑکی کو  عین حالتِ غیر میں پکڑ لیا۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے شدید حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس سے  پوچھا ؟ اچھا  یہ  سب ہو گیا اور تم نے مجھے اُٹھایا   تک نہیں ؟  میری بات سن کر  وہ  کہنے لگی جیسے ہی مجھے یہ بات پتہ چلی تھی تو میں بھاگ کر تمہارے گھر آئی تھی لیکن  اس وقت تم اپنی چارپائی  پر بے سدھ ہو کر سوئی  ہوئی تھی ۔۔۔ میں نے کافی آوازیں دیں ۔۔ لیکن جب تمہیں ہلا جلا کر دیکھا تو ۔۔۔۔۔  تمہیں  بڑا  سخت  بخار  چڑھا  ہوا  تھا ۔۔۔ 

عاشی کی بات سن کر  دل ہی دل  اس بات پر میں بڑی خوش ہوئی کہ  جب وہ ہمارے گھر آئی تو اس وقت میں گھر پر ہی  تھی۔۔۔۔۔  ورنہ اس نے  میری غیر حاضری کے بارے میں پوچھ پوچھ کر میرا  ناطقہ بند کر دینا تھا۔۔۔  لیکن میں نے  اپنی  اس خوشی کو عاشی  پر ظاہر  نہ  ہونے  دیا اور    اپنے  چہرے  پر اسی  حیرانگی کو طاری کرتے ہوئے اس سے بولی ۔۔۔ کہ  اچھا پھر کیا  ہوا؟  تو  وہ کہنے لگی ۔۔ ہونا کیا تھا۔۔۔ تمہاری دوست  کے والد اور چاچوں کو بلا کر زرینہ کو ان کے حوالے کر دیا گیا ۔۔۔ جبکہ پکڑے گئے دونوں لڑکوں  کے ساتھ بھی  یہی  سلوک   کیا گیا  ہاں  اس کے ساتھ ساتھ ان دونوں کا  اس ٹاؤن میں داخلہ بند کر دیا گیا ہے۔۔۔  اس کی باتیں سن کر میں نے ایک دفعہ شکر ادا کیا کیونکہ اگر میں پکڑی جاتی اور   مجھے میرے والد اور چچا کے  حوالے کر دیا جاتا تو ۔۔۔۔۔ آپ کو آج  میں  یہ کہانی سنانے کے لیئے   زندہ  نہ بچتی۔۔اس واقعہ کے بعد  میں  بہت ڈر گئی تھی اور  کافی عرصہ تک  بھائی کے ساتھ بھی کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کی تھی ۔۔  ہاں عاشی کے کہنے  پر ایک دو دفعہ اس کے ساتھ پروگرام ضرور کیا  تھا  وہ بھی اس لیئے کہ کہیں اس کو شک نہ ہو جائے  لیکن  اس کےساتھ سیکس کرتے ہوئے  مجھے  زرا بھی مزہ نہ آیا تھا۔۔۔ کوئی  دس   پندرہ  دن  تک میری  یہی  حالت  رہی ۔۔ 

پھر ایک  دن کی بات ہے کہ۔۔۔۔ کوئی آدھی  رات  کا  وقت  ہو گا  کہ  اچانک  ہی  میری آنکھ کھل گئی میں نے  دیکھا  تو   میرا  سارا   بدن پسینے پسینے  ہو  رہا  تھا ۔۔۔۔  ابھی  میں  اپنے  اس  طرح  جاگنے  پر حیران  ہو رہی تھی کہ   مجھے اپنی شلوار میں گیلے پن  کا  احساس  ہوا ۔۔پہلے تو  میں  یہ سمجھی کہ  میرا    یہ گیلا پن  پیریڈز  کی وجہ  ہو گا   ۔۔ اس لیئے  میں  نے اپنی شلوار کو چیک کرنے کے لیئے  نیچے  ہاتھ  مارا  تو ۔۔یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ  نیچے سے میری شلوار کافی گیلی تھی ۔۔۔۔اور غور کرنے پر معلوم  کہ   یہ گیلا پن  پیریڈز  والا   نہیں  ہے شلوار کو اتنا زیادہ گیلا دیکھ کر  دل میں  خیال آیا کہ  ۔۔ سوتے میں کہیں میرا پیشاب تو نہیں نکل گیا۔۔۔ چنانچہ یہ  خیال آتے ہی میں نے جلدی سے اپنی شلوار  کی گیلی جگہ کو چیک کرنے کے اس  پر  اپنا ہاتھ لگایا  تو اس گیلی جگہ پر میری انگلیوں کو  کچھ چپ چپاہٹ سی   محسوس ہوئی ۔۔۔  بلکہ ۔۔۔ یہ تو میری چوت سے خارج ہونے والا پانی ہے  اور اس پانی کی وجہ سے میری شلوار بہت زیادہ بھیگی ہوئی تھی۔۔۔اس کا مطلب یہ تھا  کہ  مجھے  بہت بڑا احتلام  ہوا  تھا جس کی وجہ سے میر ی ساری شلوار بھیگ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اپنی  شلوار کو  اتنا زیادہ  بھیگا  دیکھ  کر مجھ پر شہوت کی مستی  چڑھنے لگی۔۔۔۔ اور پھر میں نے  بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی شلوار گھٹنوں تک اتار دی اور اپنی چوت  کے   جائزے کی خاطر میں نے اپنی ایک ا نگلی چوت کے اندر داخل  کی ۔۔۔تو یہ دیکھ کر  حیران رہ گئی کہ میری پھدی ابھی تک  پانی  سے بھری  ہوئی  ہے  ۔۔۔  پھر میں نے اپنی انگلی  کو اس پانی سے اچھی طرح تر ۔۔  کر کے باہر نکالا   اور  اسے  اپنی آنکھوں کے سامنے کر کے دیکھنے لگی۔۔۔ لیکن اندھیرا  ہونے کی وجہ  سے  مجھے  اپنی ا نگلی پر  لگی  منی ٹھیک سے دکھائی  نہ دی – اس لیئے میں نے ۔۔ اس انگلی کو اپنی ناک کے سامنے کیا اور  اس کو سونگھنے لگی۔۔۔ واہ۔۔۔ میری  چوت  سے برآمد  ہونے  والے   پانی  کی  بڑی  ہی سیکسی مہک تھی  ۔۔پھر میں نے اس مہک والے مادے  کا ذائقہ چیک کرنے کی خاطر ۔۔اپنی  زبان  باہر نکالی  اور ۔۔۔ اور  اپنی  انگلی  پر پھیرنے لگی۔۔تو  مجھے  پتلے پتلے  مادے   کی ایک باریک سی تہہ  اپنی   انگلی پر لگی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔ جسے میں نے چاٹ کر صاف کر دیا۔۔  آہ ہ ہ ۔۔میری چوت سے نکلنے والے ۔۔اس  پتلے  پتلے  مادے  کا ٹیسٹ بہت ہی   اچھا  اور ۔۔ مزیدار تھا ۔۔۔ جیسے چاٹ کر میں اور بھی گرم ہو گئی تھی۔۔۔پھر جب میری انگلی پر لگا ہوا سار   مادہ صاف ہو گیا تو   پتہ نہیں کیوں  میری نگاہ ۔۔۔۔ بھائی کی طرف چلی گئی جو کہ اس وقت بے سدھ ہو کر سویا  ہوا  تھا ۔۔بھائی  کی طرف نظر پڑتے ہی۔۔۔۔ میرا انگ انگ ۔۔۔ میں ایک مستی سی چھا  گئی   چنانچہ  میں نے کچھ کرنے  سے  پہلے  کمرے سے باہر جا کر ایک چکر لگایا اور پھر ۔۔۔  ہر طرف  سناٹا  سا  پا کر واپس کمرے میں آ گئی اور بھائی کو ہلا جُلا  کر دیکھا  تو  اسے سوتے  ہوئے  پایا ۔۔۔ اب  میں   نے اس کا ہاتھ پکڑا  اور اپنے  دانے پر رکھ دیا۔۔۔ پھر خود ہی اوپر نیچے ہلنے لگی۔۔۔اس طرح بھائی سے مزہ لیتے ہوئے میں ایک دفعہ اور خارج ہو گئی۔



ا س کے  بعد   میں نے  دوبارہ  سے بھائی کے ساتھ مست پروگرام شروع کر دیا۔۔۔پھر  ایک دن کی بات ہے کہ میں  نے  بھائی  کا  ہاتھ  اپنے ننگی چھاتیوں  پر رکھا  ہوا  تھا ۔۔۔۔اور اس  سے اپنی چھایتوں پر   ہولے  ہولے  مساج کر رہی تھی  کہ اچانک مجھے  ایسا محسوس ہوا کہ جیسے بھائی جاگ  رہا  ہو۔۔۔۔ اسے چیک کرنے   کی  خاطر میں  نے بھائی  کا  ہاتھ  وہاں  سے  ہٹایا  اور  اپنی   ننگی پھدی  پر  لے آئی  اور  اس  کا   ہاتھ پکڑ کر  اپنے دانے پر رکھا ۔۔۔اور دھیرے دھیرے   ہلنے کے ساتھ ساتھ ۔۔۔  بڑے غور  سے  بھائی کی بھی نگرانی  کرنے لگی۔۔۔۔وہ  بظاہر تو سویا   بنا  ہوا  تھا ۔۔۔ لیکن   اس  کے  چہرے کو غور  سے  دیکھنے  پر پتہ  چلا کہ ۔۔  بھائی  کی پتلیاں حرکت حرکت  کر رہی تھیں۔۔ جس  سے   مجھے کنفرم  ہوگیا  کہ وہ ۔۔۔ جاگ رہا ہے ۔۔۔ 

میں سمجھ  تو  گئی تھی  لیکن میں نے اس  پر  کچھ  ظاہر  نہ ہونے دیا اور  روٹین کے مطابق  ساتھ  اپنا پروگرام   جاری رکھا۔۔۔   یہ  اس سے  اگلے د ن کی  بات  ہے    دوپہر کا وقت   تھا ۔۔۔    سکول سے واپس آ کر میں اور  وہ  کمرے میں بیٹھے  باتیں کر رہے تھے کہ پروگرام کے  مطابق   اچانک  ہی باتوں باتوں میں ۔۔۔میں نے  شبی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا  اور کہنے لگی ۔۔۔۔ ۔۔۔ شبی تم  رات کو جاگ  رہے  تھے   نا؟  میری بات سن کر وہ ایک دم سے ا چھلا ۔۔۔اور  اس کے ساتھ  ہی  اس کے    چہرے کا  رنگ  اُڑ  گیا  اور  وہ   میری طرف دیکھ کر    ہکلاتے ہوئے  بولا۔۔۔ جی؟  یہ۔۔۔یہ آپ کیا کہہ  رہی  ہو  باجی؟  میں تو  رات کو  سویا  ہوا  تھا۔ یہ بات کر کے اس نے  اپنا سر جھکا لیا ۔۔۔۔ اور نیچے کی  طرف   دیکھنے  لگا ۔۔ اس کا انداز  دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ وہ   جھوٹ بول  رہا ہے ۔۔۔ اور میرے دو  تین  بار  پوچھنے پر بھی جب اس نے  اپنا ناں میں جواب دیا ۔۔۔۔ تو     گھی  سیدھی انگلی  سے  نہ نکلتا  ہوا  دیکھ کر میں  نے  اس کی طرف  دیکھتے  ہوئے   بڑے  ہی  درشت لہجے  میں کہا ۔۔۔  سچ سچ  بتاؤ ۔ ورنہ ابھی    الٹے  ہاتھ  کی  دوں گی ۔۔ میری جھڑک سن کر  بھائی کی سٹی گم ہو گئی اور اس نے بڑی مجروح نظروں سے میری طرف دیکھا اور  سر جھکا  لیا  لیکن منہ سے کچھ  نہ بولا  ۔۔تب میں نے تھوڑے نرم لہجے میں اس سے پوچھا ۔۔۔  اچھا میں تم سے کچھ نہیں کہوں  گی بس صرف یہ بتا دو  کہ  تم  رات کو جاگ  رہے  تھے  نا؟ تو  میری  بات سن کر اس نے  ہاں میں سر  ہلا دیا۔۔۔ اس  کی  ہاں سن کر  میرے  سارے جسم میں  چیونٹیاں سی رینگنے  لگیں  اور ایک انجانی  سی  ۔۔ مسرت نے میرے جسم کو اپنے حصار میں لے لیا۔۔۔۔۔۔۔اب میں نے اس کی طرف دیکھااور بولی۔۔ اچھا  یہ  بتاؤ کہ تم کس  دن   جاگ  رہے  تھے  ؟ تو اس میری طرف دیکھا اور  کہنے لگا۔۔۔ ۔۔۔ کہ بہت پہلے سے ۔۔۔ اور سر جھکا لیا۔۔۔ اب میں نے اس کے جھکے ہوئے سر کو اوپر اُٹھایا اور اور بولی۔۔۔میری  طرف دیکھ  یار ۔۔۔۔میں لڑکی ہو کر نہیں شرما رہی ۔۔ جبکہ  تم لڑکے ہو کر اتنے  گھبرا         رہے ہو ۔پھر میں  نے اسے   پچکارتے ہوئے کہا کہ ۔  چلو  شاباش ۔۔۔ اب  شرمانا  چھوڑو ۔۔۔ اور   میری  باتوں  کا  ٹھیک ٹھیک  جواب  دو ۔۔ تب شبی نے اپنا سر اُٹھایا اور میری طرف دیکھ  کربولا۔۔ باجی میں شرما نہیں رہا ۔۔۔  مجھےآپ سے ڈر لگتا ہے ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اس کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ آج سے تم میرے  بھائی اور دوست ہو۔۔ چلو  ہاتھ  ملاؤ۔۔ اور اس کی طرف ہاتھ  بڑھا  دیا ۔۔۔  یہ دیکھ کر  بھائی نے بھی  اپنا  ہاتھ آگے بڑھایا اور میرا  بڑھا  ہوا ہاتھ تھام لیا۔۔۔  میں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس کا ہاتھ  پکڑا ۔۔۔اور  بولی ۔۔۔اچھا  شبی  یہ  بتاؤ ۔۔ کہ جو کچھ میں تمہارے ساتھ کرتی تھی اس کا مزہ آتا تھا؟  میری بات سن کر شبی نے ادھر ادھر دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔   باجی مجھے بھی بہت مزہ آتا تھا ۔۔۔ تو میں نے اس سے اچھا یہ بتاؤ کہ  تمہیں  کس جگہ ہاتھ لگانے سے زیادہ مزہ ملتا تھا۔۔۔ یہ بات کرتے ہوئے اچانک ہی میری نظر اس کی شلوار کی طر ف اُٹھ گئی۔۔۔۔ اور  میرے دیکھتے  ہی دیکھتے  اس کی شلوار اوپر کو  اُٹھنے لگی تھی ۔۔۔۔  ادھر شبی نے  میری  بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ باجی  مجھے آپ کے جسم  پر ہر جگہ  ہی مزہ آتا ہے ۔۔۔ تو میں نے  اس کے لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تھوڑا ہنسی اور کہنے لگی  ۔۔۔   اچھا  یہ  بتاؤ  کہ  یہ کس مزے کو  یاد کر کے ۔۔۔ کھڑا ہو گیا  ہے۔۔۔ میری بات سن کر شبی نے ایک نظر  نیچے اپنے کھڑے  ہوئے لن کی طرف  دیکھا  اور پھر ۔۔۔۔ میری طرف دیکھ کر    ۔۔بولا۔۔۔۔۔  مجھے آپ کی ہر جگہ اچھی لگتی ہے ۔۔۔ اس کا لن دیکھ کر اس  بات سن کر  اچانک  ہی مجھے پر شہوت نے بڑی زور کا  حملہ کر دیا ۔۔۔اور میں  جزبات سے بھر پور لہجے میں  اس سے بولی۔۔۔شبی   میرے ساتھ  ابھی مزہ  لو  گے ؟ میری بات سن کر وہ بڑا حیران  ہوا  اور  ڈرے ڈرے لہجے میں بولا ۔۔۔  باجی ابھی تو بہت مشکل ہے کہ سارے گھر  والے  گھر میں ہی  ہیں۔۔۔   دوپہر کا  ٹائم  ہے ۔۔۔ لیکن اس وقت   میرے سر پر شہوت سوار ہو چکی تھی۔۔۔  اس لیئے میں نے  اس سے کہا ۔۔۔ تو بتا  ۔۔ ابھی مزہ چاہیے کہ نہیں ۔۔۔؟ تو وہ بولا۔۔۔۔  جیسے آپ کی مرضی باجی۔۔۔اور    اچانک اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔۔۔۔

   بھائی کو اپنے  ہونٹوں پر زبان پھیرتے دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ اس کو بھی  شہوت   چڑھنے لگی تھی  میں اس کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کرنے کے  ساتھ ساتھ ۔۔۔۔  دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ اگر ابھی مزہ لینا  ہو  تو کہاں  لیا  جائے۔۔۔۔۔۔ سوچتے سوچتے  اچانک  ہی  میرے  ذہن میں ایک جگہ آ گئی ۔۔۔۔  اس سے زیادہ محفوظ جگہ نہیں ہو سکتی تھی ۔۔۔۔   

کسی زمانے  میں  ہمارے والدہ کو  مرغیاں پالنے کا شوق  پیدا  ہوا تھا ۔۔۔ دن کو تو وہ ادھر ادھر پھر لیتی تھیں  لیکن رات کو  ان کے سونے کے لیئے  اماں نے  اپنے چھت پر    ایک کھُڈا   بنایا  ہوا  تھا  اور  مرغیوں کا یہ کُھڈا   چار  فٹ چوڑا  اور تقریباً  اتنا  ہی  لمبا  تھا     یعنی کہ  اس  میں  بندہ ٹھیک سے کھڑا نہیں ہو سکتا ہے  اس کو  بلیوں سے بچانے کے لیئے   اس کی باقی تین اطراف   تو اینٹوں سے ڈھانپی ہوئیں تھیں جبکہ   چھت والی سائیڈ پر  ہوا کے لیئے  اینٹوں کے درمیان جگہ چھوڑ  کر دیوار بنائی  ہوئی تھی۔اس کھڈے کے آگے  دروازے کی  بجائے ۔۔۔ایک  بڑا  سا  ٹاٹ  لگا  ہوا  تھا ۔۔۔ لیکن  پھر  یوں  ہوا کہ  بیماریوں  کی  وجہ سے ایک ایک کر  کے اماں کی ساری مرغیاں مر گئیں ۔۔تو اس کے بعد اماں نے مرغیاں  تو  نہ  پالیں  تھیں ۔۔۔ لیکن۔۔۔ مرغیوں کے اس کھُڈے  کو  ویسے  کا  ویسا  ہی  رہنے  دیا تھا ۔۔پھر  کچھ عرصہ  بعد  اماں نے اس کا ایک اور تصرف سوچ  لیا  تھا اور وہ یہ کہ اس کھُڈے میں    اب  وہ مرغیوں کی جگہ    بارش  وغیرہ  سے بچاؤ کے لیئے  جلانے  والی  لکڑیوں کا  ذخیرہ   رکھا کرتی تھی۔۔۔ لیکن اتفاق سے ان دنوں مرغیوں کا یہ  کُھڈا ۔۔ یا  جسے اردو میں دڑبا کہتے ہیں بلکل خالی تھی ۔۔  اس  دڑبے کا  خیال آتے  ہی میں نے شبی سے اس بارےمیں بات  کی  تو  کچھ دیر  سوچنے کے  بعد   وہ میرے ساتھ وہاں جانے پر   راضی  ہو گیا  لیکن پھر  کچھ سوچے  ہوئے بولا ۔۔۔ کہ  باجی  وہ  تو  بہت گندہ  ہو گا ۔۔۔ تو  میں نے اس  سے کہا ۔۔۔ نہیں  وہ گندہ نہیں  بلکہ بلکل صاف  ہے  کیونکہ ابھی  پچھلے  ہی  ہفتے    امی نے مجھ سے اس کی صفائی کرائی تھی۔۔اسی  لیئے  تو  میرے زہن میں اس کا خیال آ یا ہے ۔۔۔ میری بات سن کر اس نے سر ہلا دیا ۔۔۔ اس پر میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ہاں اس کا فرش  البتہ  دھوپ کی وجہ سے خاصہ تپا   ہوا   ہو گا۔۔۔پھر میں نے  اس سے کہا کہ ۔۔  اس کی تم فکر  نہ کرو ۔۔۔ ہم  وہاں  درری  بچھا  دیں  گے ۔ میری بات سن کر    وہ کہنے  لگا  ہاں باجی  یہ ٹھیک رہے گا ۔۔ ۔۔۔  چنانچہ  بھائی کے ساتھ  سارا  پروگرام  طے کرنے کے بعد میں  وہاں سے اُٹھی  اور  اس سے  کہنے لگی ۔۔۔۔۔ اوکے بھائی۔۔ میں چھت پر جا  رہی ہوں  ۔۔۔۔۔ٹھیک دس منٹ بعد تم بھی  اسی  دڑبے میں آ جانا ۔۔  پھر اسے آنکھ  مارتے   ہوئے بڑے ہی منی خیز لہجے میں بولی ۔۔۔ باقی باتیں   وہیں   پر   ہو ں  گی ۔۔

میری بات سن کر شدتِ جزبات  سے شبی کا  چہرہ  سُرخ  ہو گیا ۔۔اور اس نے   بے  دھیانی  میں اپنے لن پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔  دیکھ لو  باجی  کہیں امی  نہ آ جائیں ۔تو میں نے اس کے گال  پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ  تم فکر نہ کرو  میری جان ۔۔۔۔ دوپہر کو امی آرام کرتی ہیں ۔۔ اور دوسری بات یہ کہ  اگر وہ اوپر آ بھی گئیں   تو کبھی بھی ان کا دھیان  کھُڈے  کی طرف نہیں جائے گا  ۔۔۔ ویسے  بھی ہم  کھڈے کے سوارخ میں سے  باہر  دیکھتے  رہیں  گے ۔۔۔۔  میری  اس  بات  سے اس  کی کچھ تسلی ہوئی  اور   وہ کہنے  لگا  ٹھیک  ہے باجی آپ  جاؤ میں آتا ہوں۔۔۔  اس کی بات سن کر  میں وہاں سے اُٹھی ۔۔۔۔ اور  باہر کی طرف چل پڑی۔۔۔۔ چونکہ چھت پر جانے  والی  سیڑھیاں   صحن سے ہو کر جاتی تھیں ۔۔۔ اس لیئے میں دبے پاؤں صحن میں گئی اور ۔۔اور اماں کے کمرے کا ایک چکر  لگایا ۔۔۔۔۔ ان کے کمرے کا  دروازہ  بند  تھا ۔۔لیکن میں نے  دروزے کو تھوڑا سا  کھول کر دیا ۔۔۔تو  وہ ۔۔۔۔ میری چھوٹی بہن کے ساتھ سو رہی تھیں ۔۔۔۔ادھر سے مطمئن ہونے کے بعد میں  سیڑھیوں کی طرف گئی ۔۔۔اور    دبے پاؤں   چلتی  ہوئی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔۔۔۔۔  ۔۔۔ اور پھر اوپر ممٹی   میں  پہنچ کر میں نے  ادھر ادھر دری تلاش کی لیکن ۔۔۔۔  وہ  وہاں موجود  نہ تھی  تب   میں  نے ایک چارپائی   پر بچھی  تلائی ۔۔۔ اُٹھائی  اور ممٹی سے با ہر چھت پر  آ گئی۔۔۔اور یہاں آ کر میں نے  ایک نظر آس  پاس کی چھتوں کو  دیکھا  تو ۔۔۔ دور دور تک چھتوں کو سنسان پایا ۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ میں    تلائی ہاتھ میں  پکڑ کر ادھر ادھر  دیکھتے ہوئے  ۔۔۔  مرغیوں کے دڑبے کے قریب  جا پہنچی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور  یہاں آ کر ایک بار پھر آس پاس کے کوٹھوں پر نظر دوڑائی۔۔۔  دھوپ  تیز  ہونے کی وجہ  سے  آس پاس کے چھتوں  پر سناٹے  کا  راج  تھا۔۔۔۔  یہ دیکھ کر میں نے ایک ہاتھ سے دڑبے  پر لگے ٹاٹ کو اوپر کیا ۔۔۔ ۔۔۔اور اندر داخل ہو گئی۔۔۔ پھر فرش پر تلائی  بچھا  کر بھائی کا انتظار کرنے لگی۔۔۔



کچھ ہی  دیر بعد ۔۔۔ چھت پر قدموں کی آواز سنائی دی ۔۔۔ فوراً ہی میں نے کھُڈے کے سوراخوں سے دیکھا  تو   وہ   بھائی  تھا اس لیئے  میں مطمئن  ہو  گئی۔۔۔۔۔۔۔ اگلے  ہی  لمحے  بھائی  کھڈے  کے  دروازے پر کھڑا تھا۔۔۔۔۔اور اس کے  ساتھ  ہی  مجھے   بھائی  کی جزبات  سے کانپتی  ہوئی  سرگوشی نما آواز سنائی  دی ۔۔۔ باجی۔۔!!!!!!۔ بھائی کی  آواز سن کر میں نے ٹاٹ کو ایک سائیڈ پر  کیا  ۔۔۔اور بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے سرگوشی میں بولی۔۔۔ ۔۔۔۔ شبی اندر آ جاؤ۔۔۔  میری  آواز  سنتے  ہی شبی  نے  اپنا سر جھکایا اور کھُڈے میں  داخل ہو گیا ۔۔۔ جیسے ہی  بھائی کھڈے میں داخل ہوا  میں نےجلدی سے  ٹاٹ کو  واپس  اپنی  جگہ پر کر دیا ۔۔۔۔ ۔۔  دڑبے کے اندر آ کر ۔۔۔ شبی  ۔۔سر جھکا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ ادھر میری اندر آگ لگی  ہوئی تھی۔کہ شبی  کچھ  کہے تو  "کام " شروع کروں لیکن دوسری طرف  بھائی سر جھکائے بلکل چُپ  بیٹھا  تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے  ہی  ہمت کرنے  کی ٹھانی    اور   تھوڑا   کھسک کر   شبی کے  ساتھ لگ کر بیٹھ گئی۔۔۔ ۔۔  اور اس سے سرگوشی میں بولی۔۔۔۔  کیسا  لگ  رہا  ہے میرے   بھائی؟  تو اس   نے سر اُٹھا کر میری طرف دیکھا  اور  کانتپی   ہوئی آواز میں کہنے لگا۔۔۔ ۔۔۔  باجی  مجھے بہت اچھا  لگ  رہا   ہے۔۔۔ اس کی بات سن کر میں اس کے ساتھ تھوڑا اور  جُڑ کر بیٹھ گئی۔۔۔اور اس  کا  منہ  اپنی طرف کر کے بولی۔۔۔۔  بھائی   بتاؤ  نہ  کہ اب ہمیں کیا کرنا  چاہیئے؟؟؟؟؟ ۔لیکن میری  باس سن کر  وہ  چپ  رہا  اور کوئی جواب  نہ  دیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے جزبات سے رندھے ہوئے لہجے میں اس سے  بولی۔۔۔ شرماؤ      نہ  بھائی ۔۔تمہارے  دل  میں جو بات  ہے کہہ دو۔۔۔  میری بات سن کر اس نے  ایک نظر مجھے   دیکھا۔۔۔ اور پھر سر جھکا دیا ۔۔آخر میرے بار بار کے اصرار پر اس نے اپنا سر اُٹھایا ۔۔۔اور  ۔۔۔ میری طرف دیکھ کر  کہنے لگا ۔۔ جو ۔آپ کہو ۔۔۔ اسے   یوں شرماتے دیکھ کر  ۔۔ میں خود ہی کچھ کرنے کا سوچا ۔۔اور پھر یہ سوچتے ہی ۔۔ میں نے اس کا  ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔اور اپنے  چھاتیوں پر رکھ دیا ۔۔اور کہنے لگی ۔۔۔شبی ۔۔۔ میری  چھاتیاں  کیسی  ہیں؟ تو وہ  اپنے ہاتھ کو میری چھاتیوں پر رکھے رکھے کہنے لگا۔۔۔باجی آپ کی چھاتیاں اچھی  ہیں۔۔ تو میں نے اس سے کہا   اچھا یہ  بتاؤ۔۔۔میری  چھاتیاں  تم کو  کپڑوں  میں اچھی لگتی  ہیں  یا کہ ننگی؟ تو اس  نے  میری طرف دیکھا اور ہونٹوں پر زبان پھیر کر کہنے لگا۔۔۔ باجی۔۔۔۔چھاتیاں تو ننگی  ہی اچھی لگتی  ہیں ۔۔۔   تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔تو  کیا خیال ہے  بھائی ۔۔۔ میں اپنی چھایتوں کو ننگا نہ کر دوں؟ میرے منہ سے یہ بات سن کر اس نے ایک جھر جھری سی لی ۔۔۔اور بولا۔۔۔ ہاں باجی۔۔۔ کر۔۔ دو۔۔۔ اس کی بات سن کر  جلدی سے میں نے اپنی قمیض کو اوپر کیا ۔۔۔ اور  پھر ننگی چھاتیوں کو اس کے سامنے کرتے ہوئے بولی۔بھائی  اب  بتاؤ ۔۔ میری  چھاتیاں کپڑوں میں اچھی لگتی  ہیں یا  ایسے ننگی ننگی ۔۔میری بات سن کر اس کو چہرہ مزید سرخ ہو گیا   ۔۔ لیکن وہ کچھ نہ بولا ۔۔۔۔  چنانچہ اب میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ۔۔۔ زرا  چیک کر کے  بتا  ۔۔۔ کہ میری ننگی چھاتیاں کیسی ہیں؟ اور اس کے ساتھ ہی اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی چھاتیوں پر رکھ دیا۔۔۔ اس نے میری چھاتیوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور تھوک نگھلتے  ہوئے  کہنے لگا۔۔۔۔ باجی آپ کی چھاتیاں بہت سخت ہیں ۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ میرے بھائی۔۔۔  تمہاری بہن کی چھاتیاں اس لیئے سخت ہیں ۔۔۔ کہ  ابھی تک ان کو  تمہارے علاوہ کسی اور مرد نے  نہیں پکڑا۔۔۔ اور تم نے بھی  کہاں پکڑا  ہے  ۔۔۔ خود میں نے  ہی  تمہارا  ہاتھ  پکڑ کر ان   پر رکھا  ہے۔۔۔ ہاں اس سے  پہلے بھی تم نے ان چھاتیوں  پرا پنا   ہاتھ  رکھا  تھا لیکن اس وقت تم سوئے ہوئے ہوتے   تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔ اور اب جبکہ تم جاگ  رہے  ہو  تو  اپنی بہن کی چھاتیوں کو خوب ذور سے دباؤ  نا۔۔۔۔ میری بات سن کر اس نے جوش  میں آ کر  میری چھاتیوں کودبانا  شروع کر دیا۔۔۔  اور  پھر  اتنے  زور سے دبایا کہ میری  چیخ  نکلتے  نکلتے  رہ  گئی  اور میں نے سسکی لیتے ہو ئے اس سے کہا کہ بھائی۔۔۔ آرام سے ۔۔۔تو  وہ  کہنے  لگا۔۔۔مجھے ایسے ہی دبانے دو نا  باجی۔۔۔  لیکن اس کے بعد وہ  بڑے آرام آرام سے میری چھاتیوں کو دبانے لگا۔۔۔۔ وہ میری چھاتیوں کو دباتے ہوئے مسلسل اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا ۔۔۔اور اس  کے ساتھ ہی اس کی شلوار بھی   کافی اوپر کو اُٹھی ہوئی تھی۔۔۔ چھاتیوں کو دباتے دباتے اچانک  ہی  بھائی نے مجھ  سے پوچھا۔۔  باجی آپ کی چھایتاں اتنی سخت کیوں  ہیں ؟ تو  میں نے   اس سے کہا ۔۔۔ میرے بھائی میری چھایتاں اس لیئے سخت ہیں کہ ان میں دودھ بھرا  ہوا ہے ۔۔۔ پھر میں  نے اپنی ایک چھاتی کا  نپل اس کے منہ کے  قریب کردیا اور کہنے لگی۔۔۔ بھائی  میرا  دودھ   پیو گے؟  میری  بات سنتے  ہی اس  نے  اپنا  منہ کھول دیا اور میری چھاتی کو  اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگا۔۔۔۔ اس کے میرے نپل کو اپنے منہ میں لینے کی دیر تھی ۔۔۔ کہ مزے کی ایک تیز لہر میرے سارے جسم سے  ہوتی  ہوئی چوت  تک  جا  پہنچی ۔۔۔اور مزے  کی اس  تیز  لہر نے   میری پھدی میں  سپارک کا  کام کیا ۔۔۔ کیونکہ اس کے ساتھ  ہی  میری  چوت میں بہت تیزی کے ساتھ  آگ بھڑک اُٹھی تھی ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے  بھائی کے ساتھ اپنی  دوسری چھاتی کو بھی  رگڑتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔  زور سے  چوس نہ میرے بھائی۔۔میری بات سن کر   بھائی نے اور بھی جوش سے  باری باری میری  دونوں  چھاتیوں  کو  چوسنا  شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔   ادھر   چھاتیاں  چوستے دیکھ  کر مجھے اپنے بھائی پر بہت زیادہ پیار آ رہا  تھا  اور میں شہوت کے نشے میں ٹُن ہوتی  جا رہی تھی ۔۔۔۔۔ اس لیئے میں نے بڑے  ہی  پیار  سے بھائی  کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔۔ مُنا ۔۔۔۔۔۔ میری چھاتیوں  سے دودھ نکل رہا  ہے  نا۔۔ میری چھاتیو ں کو چوستے  چوستے منا  یعنی کہ میرا بھائی بھی  بہت گرم ہو  چکا  تھا ۔۔۔اس  لیئے اس نے میری  بات سن کر میری چھاتی  سے اپنا  منہ ہٹایا  اور۔۔۔ اور میری طرف دیکھتے ہوئے جزبات سے  چُور  لہجے میں کہنے لگا۔۔۔۔ ہاں باجی ۔۔ آپ کی چھاتیوں سے دودھ نکل رہا ہے۔۔۔اور پھر اس کے ساتھ  ہی  اس نے  دوبارہ  سے میری  چھاتیوں کو اپنے منہ میں لیا اور  میرا دودھ  پینے  لگا۔۔۔۔  بھائی سے اپنی چھاتی  کو  چسواتے ہوئے  مجھ  پر ایک عجیب سا  نشہ  چڑھتا جا  رہا  تھا ۔۔اور اس لزت آمیز  نشے کے زیرِ اثر میں ۔۔۔۔ میں بڑے  پیار  سے بھائی  کے بالوں میں انگلیوں پھیرتے  ہوئے آہستہ آہستہ  سسکیاں لے رہی تھی۔۔۔۔اُف  بھائی  توُ  کتنا  اچھا   بھائی  ہے۔۔۔ اپنی بہن کو کتنا مزہ  دے  رہا  ہے ۔۔۔آہ ہ ہ۔۔۔ بھائی اور زور سے چوس نہ بہن کی چھاتی کو ۔۔۔۔۔اُف ف فف فف ف ف  ف۔۔۔

میری چھاتیوں کو چوستے چوستے اچانک بھائی نے سر اُٹھایا اور کہنے لگا۔۔۔ باجی آپ کی چھاتیوں کو چوستے ہوئے میرے ادھر (لن پر)  پر ایک عجیب سی بے چینی  ہو  رہی  ہے۔۔۔ تو  میں نے اس سے کہا کیسی بے چینی  میرے  بھائی؟ تو وہ معصومیت سے بولا۔۔۔ مجھے نہیں پتہ ۔۔۔۔   بس اس میں بڑی سخت قسم کی اکڑن  پیدا  ہو گئی ہے۔اور اس اکڑاہٹ  کی وجہ سے میرے اس (لن ) میں بہت   درد  ہو  رہا  ہے ۔۔ پھر وہ  کہنے  لگا۔۔۔۔  باجی۔۔۔۔ آپ  ہی  میرے اس درد کو  کچھ  کم کر سکتی  ہو   تو  میں  نے  اس  سے کہا کہ  وہ  کیسے؟ تو  وہ  کہنے  لگا۔۔ وہ ایسے  باجی کہ آپ اس کو  اپنے  ہاتھ میں پکڑ  کر تھوڑا  دباؤ۔۔۔۔۔۔  اس کی بات سن کر میں نے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ  ہی میں نے اپنا  ہاتھ اس  کے کھڑے  ہوئے لن  پر  رکھ  دیا۔۔۔۔ واقعی ہی اس کا لن بڑی سختی کے ساتھ اکڑا  ہوا تھا  ۔۔۔۔ اس لیئے میں نے اس کو مُٹھی میں پکڑ کر تھوڑا  دبا یا ۔۔۔۔  اور اس کے لن کو  دباتے  ہوئے  میں نے غور کیا تو جیسے ہی میں اس کے لن کو  دباتی تھی ۔۔۔ وہ  مزے سے  مخمُور نظروں سے میری طرف دیکھتا تھا اور  اشارے سے مجھے مزید  دبانے کو کہتا  تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس طرح   کچھ دیر تک میں اس کے لن کو دباتی رہی۔۔۔ پھر  ۔۔۔ اس کی طرف دیکھ کر بولی۔کچھ درد کم  ہوا؟۔تو اس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔اس پر میں نے اس سے کہا ۔۔۔ لن  کو  دبانا  بس کروں یا اور دباؤں ؟؟  تو  وہ کہنے  لگا۔۔۔۔ابھی کے لیئے اتنا  ہی  ٹھیک  ہے اور وہ   پھر سے میرے  مموں کو  چوسنے  لگا۔۔۔۔اس  کا  لن  ہاتھ میں پکڑنے اور اس سے ممے چسوانے کی وجہ سے  میری پھدی میں آگ کا ایک  بھانبڑ سا  جلنے  لگا    تھا ۔۔۔اس لیئے میں نے  بھائی  کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔۔ اب بس کر دو بھائی۔۔۔  میری بات سن  کر اس نے میرے مموں سے اپنا سر ہٹایا اور بولا۔۔۔ بس کردوں لیکن کیوں  باجی؟    تو میں نے   اس سے کہا ۔۔۔ اس لیئے کہ ابھی تم نے  میری  پھدی بھی  چوسنی ہے۔۔ میری بات سن کر اس کی آ نکھوں میں حیرانی  امنڈ  آئی اور  وہ  کہنے  لگا۔۔۔ پھدی ؟؟؟؟۔۔۔مطلب آپ کی ؟؟۔۔۔۔۔۔ تو میں نے اپنی شلوار اتار کر  اپنی پھدی کو اس کے سامنے کر دیا ۔۔۔ اور  اس کی طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔۔ ہاں  بھائی میری پھدی  چوسو۔۔۔۔  میر ی با ت سن کر  وہ  تھوڑا  حیران  ہوا  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ابھی  کچھ  کہنے  ہی  والا تھا کہ  اچانک میں تھوڑا  پیچھے کو  ہٹی اور  بھائی کے سر کو پکڑ کر اپنی پھدی کی طرف دبا دیا۔۔ اور اس سے بولی۔۔۔۔۔میری  پھدی  کو چوس  نہ  بھائی۔۔ اور بھائی کبھی  مجھے اور کبھی  میری کالی  پھدی  کی طرف دیکھ  رہا  تھا  جس پر پھدی سے بھی   بڑے بڑے کالے بال اُگے ہوئے تھے  اسی لیئے  وہ کبھی مجھے اور کبھی میری پھدی پر اُگے بڑے بڑے بالوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔ پھر میری بار بار کی  فرمائیش سن کر  اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا پھر  نیچے کی  طرف اشارہ کر کے کہنے لگا۔۔۔۔  باجی میں  آپ کی پھدی کہاں سے  چوسوں ۔۔۔اس پر تو اتنے بڑے بڑے بال اُگے ہوئے  ہیں ۔۔۔؟   تو میں نے اس کو بتایا کہ بھائی تم ان  بالوں کو  ایک طرف ہٹا کر میری چوت  کو     چاٹ  سکتے  ہو۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اس کے سر کو اپنی پھدی کی طرف دبا  دیا۔۔۔۔  اور  اس کے  ساتھ ہی اپنی دونوں ٹانگوں کو آخری حد تک کھول دیا۔۔۔  میری  کھلی ٹانگیں دیکھ  کر  بھائی بھی گھٹوں کے بل نیچے  بیٹھ   گیا اور میری چوت پر منہ  رکھ دیا۔۔۔۔۔  پھر اس کے بعد اس نے ایک گہرا سانس لیا۔۔۔ اور  اپنا سر اُٹھا  کر میری طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔ باجی۔۔۔۔ آپ کے ادھر (پھدی ) سے بڑی  ہی ظالم قسم کی  مہک آ رہی ہے۔۔۔اس پر میں نے اس سے پوچھا ۔۔۔ اچھا یہ بتا کہ میری پھدی سے آنے والی  یہ   مہک تم کو اچھی لگ   رہی  ہے  یا برُی؟    میری بات سن کر بھائی اپنے ناک کو میری چوت کے بالوں میں   میں لے گیا ۔۔۔اور  وہاں پر اس نے ایک گہرا سانس لیا ۔۔۔اور چوت سے نکلنے والی  مہک کو اپنے اندر سموتے ہوئے بولا۔۔۔ باجی آپ کی اس (چوت)  سے  اُٹھنے  والی مہک اتنی  شاندار   ہے کہ مجھے ایسا  لگ رہا  ہے کہ جیسے میں  نے کوئی نشہ کیا  ہوا  ہے۔۔۔۔ تو  میں نے اس سے کہا ۔۔۔ بھائی میری  جان ۔۔۔ اس نشے  والی  چیز کو  چاٹو  نا۔۔۔۔ میری بات سن کر بھائی بڑی  خوشی سے بولا۔۔۔  ابھی چاٹتا  ہوں ۔۔۔ میری باجی۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی دو انگلیوں سے میری چوت کے بالوں کو ادھر ادھر کر کے اس کے    لبوں کو ننگا کیا اور پھر اپنے  منہ سے زبان نکلا کر ان  لبوں پر رکھ دی۔۔۔ اور  پھر  اس نے میری چوت کو چاٹنا  شروع  کر  دیا۔۔۔  جیسے جیسے اس کی زبان  میری  چوت پر لگتی   ویسے  ویسے میری جسم میں  لزت کی لہریں اُٹھتی جاتیں  تھیں اور ویسے ویسے   جوش میں آ کر میں۔۔ سسکتے ہوئے ۔۔۔۔ اپنی  ہپس کو نیچے سے  تھوڑا اوپر کرتی اپنی چوت کو اس کے منہ  میں گھسانے کی کوشش کرتی تھی۔۔۔۔اس کو نتیجہ یہ نکلا کہ میری چوت سے رسنے والا پانی اس کے منہ میں  جانا شروع  ہو گیا۔۔۔ اور پھر یہ دیکھ کر اس نے اپنا سر اوپر اُٹھایا ۔۔۔اور مجھ سے کہنے لگا۔۔۔۔ باجی ۔۔۔ آپ نمک کم کھایا کرو۔۔۔ تو  میں نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔ وہ کیوں  میرے  پیارے  بھائی ؟ تو  وہ کہنے لگا ۔۔۔ وہ ۔۔یوں کہ آپ کے چوت کے پانی میں نمک کی مقدار خاصی  زیادہ  ہے۔۔۔ اس پر میں نے   ہنستے   ہوئے  اس سے کہا ۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ میری چوت کا  جوس کیسا ہے؟ تو وہ  بھی   مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔ چوت   کا پانی تو ٹھیک ہے  لیکن  اس میں نمک تھوڑا   زیادہ   ڈل گیا  ہے۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے میری  چوت کی لکیر  پر اپنی  زبان کو تیزی سے چلانا شروع کر دیا۔۔۔  یہ دیکھ  کر میں اور بھی جوش میں آ گئی اور اس سے کہنے لگی۔۔۔ اپنی زبان کو چوت کے اندر ڈال۔۔۔  میری بات سن کر اس نے اپنی دونوں انگلیوں سے   میری چوت کے لبوں کو تھوڑا  اور کھولا ۔۔۔۔۔ اور اپنی زبان اندر ڈال دی۔۔۔۔جیسے ہی اس کی زبان نے میری چوت کی اندرونی تہہ کو چاٹا ۔۔۔۔ میرے منہ سے سسکیوں کا طوفان نکلنا شروع ہو گیا ۔۔۔ اور  شاید جوش میں آ کر میں تھوڑا اونچی ۔۔۔۔۔۔ آواز میں سسکیاں لے بیٹھی تھی ۔۔۔تبھی تو  بھائی نے  میری پھدی سے اپنا  سر  ہٹایا  اور کہنے  لگا۔۔۔ باجی۔۔۔زرا  آہستہ چیخیں ۔۔۔  اس کی با ت سن کر مجھے کچھ ہوش آ گیا اور میں نے اس سے کہا ۔۔۔ سوری بھائی ۔۔ لیکن میں کیا کروں کہ تمہاری زبان  کی چٹائی نے مجھے پاگل کر دیا ہے ۔۔۔ پھر میں نے اس سے کہا کہ بھائی اب ایسا کرو کہ اپنی زبان کو میری پھدی میں ڈالنے کی بجائے میری  میری چوت کے عین  اوپر  سجے  اس موٹے دانے کو اپنے ہونٹوں میں  لیکر چوسو۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ اپنی انگلیوں کو بھی میری چوت میں اندر باہر کرو۔۔۔ میری بات سنتے ہی بھائی نے   کسی معمول کی طرح ۔۔۔۔۔۔  میری ہدایت پر عمل کرتے ہوئےمیرے پھولے ہوئے دانے کو اپنے دونوں ہونٹوں میں لیا ۔۔۔ اور دوسری طرف  اپنی  دو  انگلیوں کو  میری  چوت میں ڈال  دیا۔۔ اور دانے کو چوستے ہوئے انگلیوں کو اندر باہر کرنے لگا۔۔۔۔بھائی کے اس عمل سے میں اس قدر بے خود ہو  گئی کہ کچھ ہی دیر بعد  میرے جسم میں  اکڑن پیدا  ہونا  شروع  ہو  گئی۔۔۔۔ اور ۔۔ اس کے ساتھ ہی میرے منہ سے بے ربط سی  باتیں نکلنے لگیں آہ۔۔۔ بھائی۔۔۔ی۔۔ی ی۔۔۔۔۔۔۔۔۔چ چچ ۔۔وسس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چوسسس۔۔۔۔س۔س۔س۔۔۔۔ انگلی تیز ۔۔۔چلا۔۔۔ اُف ۔۔ف۔میں مر گئی۔ئ ئی۔۔۔۔۔     ابھی میں نے اتنا ہی کہا کہ تھا ۔۔۔ اچانک ہی ۔۔۔ میری  پھدی  سے  بہت  سا را  گرم پانی۔۔۔۔ ایک ریلے کی صورت میں ۔نکلا۔۔۔۔ اور۔۔ اس  گرم پانی  سے میرے     بھائی  کا  سارا  منہ  لپڑ گیا۔۔۔ ادھر جیسے ہی میں چھوٹی ۔۔ اور کچھ دیر میں میرا سانس بحال ہوا  تو ۔۔۔ ایک دم سے میں اوپر اُٹھی ۔۔۔اور بھائی کو بھی اُٹھا لیا ۔۔۔اور  پھر کھُڈے میں  ۔۔۔میں اور بھائی  گھوناں کے بل آمنے سامنے  کھڑے ہو گئے ۔۔۔ بھائی نے بڑے شہوت  بھرے انداز میں میری طرف دیکھا ۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔۔مزے آیا باجی؟ ۔۔ اس کی بات سن کر میں ایک دم آگے بڑھی اور اس کو اپنے گلے لگا کر بولی۔۔۔ بہت مزہ آیا میری جان ۔۔ تم نے بہت مزہ دیا ۔۔۔ پھر میں نے اپنا چہرہ اس کے مقابل کیا اور اس کے منہ پر لگی اپنی ساری منی چاٹ لی۔


اس  دوران  بھائی مسلسل میری گانڈ پر ہاتھ پھیرتا رہا ۔۔۔۔ ۔۔۔ جب  میں اس کا سارا منہ چاٹ کر صاف کر چکی ۔۔۔تو  بھائی نے اچانک ہی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شہوت  ذدہ  انداز میں میر ی طرف دیکھا ۔۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔  آپ کا  کام ہو گیا باجی؟ تو  میں نے اثبات میں سر ہلا کر اس سے کہا ۔۔۔ ہاں میرا کام ہو گیا میرے بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تب اس نے میری طرف دیکھا اور بڑے کھلے انداز میں  کہنے لگا۔۔۔۔اب آپ میرا کام بھی کریں ۔۔۔۔  اس کی یہ بے باقی دیکھ کر میں حیران ہو گئی ۔۔اور اس سے کہنے لگی۔۔۔  بولا ۔۔۔ مجھے کیا کرنا ہے ۔۔۔  میری بات سن کر اس میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھ کر بولا۔۔۔۔باجی اب آپ میرے اس کو ٹھنڈا کریں ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی شلوار اتار دی۔۔۔ اور اپنے لن کو  ننگا  کر کے بولا ۔۔۔۔۔۔ باجی   مجھےاپنی   گانڈ  مارنے دیں۔۔۔۔ بھائی کی بات سن کر میں حیران رہ گئی اور سے بولی۔۔۔۔۔ گانڈ کیوں میرے بھائی ۔۔۔ اپنی بہن کی تم  چوت  مارو۔۔۔ تو  وہ کہنے  لگا۔۔۔۔ نہیں  مجھے گانڈ اچھی لگتی  ہے۔۔۔ چوت  پھر کبھی  ماروں گا۔۔۔۔ اس کی  بات سن کر میں  نے بڑی حیرانی سے شبی  کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ شبی یہ تم کہہ رہے ہو۔۔۔  کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے تمہارے منہ سے بات نہیں نکل رہی تھی اور اب تم ۔۔۔ یہ کیا  چکر  ہے ؟؟۔۔۔ میری بات سن  کر شبی ایک دم مسکرایا ۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔ تھوڑی  دیر  پہلے  ہمارے درمیان  ایک جھجھک سی تھی۔۔۔ جو آپ نے ختم کر دی ہے ۔۔۔۔ اب  چونکہ میرے اور آپ کے درمیان کوئی  پردہ نہیں رہ گیا ۔۔اس لیئے مجھے جو     آپ سے    چاہیئے تھا کہہ دیا ۔۔۔ اس  پر میں نے اس سے کہا ۔۔کہ اچھا   یہ  بتاؤ  کہ ۔۔ تم  کو  میری گانڈ  ہی کیوں چاہیئے؟؟ جبکہ لوگ تو  پھدی پر  مرتے  ہیں ؟۔۔۔ تو  وہ کہنے  لگا۔۔۔ باجی آپ  تو  جانتی  ہی  ہو کہ میں مدرسے میں پڑھتا  ہوں ۔۔۔تو  پڑھائی کے ساتھ  ساتھ وہاں پر یہ کام  بہت   زیادہ  ہوتا  ہے ۔۔۔  بھائی کی بات سن کر میری آنکھیں کھلی  کی کھلی رہ گئیں اور میں نے  اس سے بڑی حیرانی سے  پوچھا۔۔۔۔ تو کیا   تمہارےاستاد اور  قاری صاحب کو  منع  نہیں کرتے ؟  تو  وہ  کہنے  لگا۔۔۔ بلکل کرتے  ہیں ۔۔۔ لیکن جب  وہ  لوگ خود  ہی  یہ کام کریں گے  ۔۔۔ تو  پھر  ہم لوگ کیسے منع ہو   سکتے   ہیں۔ اس پر میں مزید حیران ہو گئی ۔۔۔ اور اس  سے بولی تم کب سے یہ کام کررہے  ہو ؟؟۔۔۔تو وہ۔کہنے لگا۔۔ بہت عرصہ پہلے سے۔۔۔۔۔پھر خود ہی بولا۔۔۔۔۔۔حیران  نہ  ہوں باجی۔۔۔ میں نے اب تک کافی  بنڈیں پھاڑی  ہیں ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں بڑی محظوظ ہوئی اور اس  سے پوچھنے لگی۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ۔۔۔۔کسی نے تمہاری بھی  پھاڑی ہے؟  میری بات سن  کر وہ  تھوڑا  شرمندہ  سا  ہو کر   کہنے  لگا۔۔۔۔ باجی  ہمارے  مدرسے میں" واری وٹہ"  یعنی کہ ادلے کا بدلہ چلتا ہے ۔۔ اس لیئے جس کی ماریں ۔۔۔اس کو دینی بھی پڑتی ہے۔۔۔ پھر اس نے بڑی التجائیہ  نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ۔۔۔۔۔ باجی ۔مجھے عورتوں  کی بنڈ   مارنے  کا بڑا   شوق   ہے ۔۔ اس لیئے     مجھے  اپنی  بنُڈ   مارنے  دیں  نا۔۔۔۔

بھائی کی  یہ فرمائیش سن کر میں شش و پنج میں پڑ گئی۔۔۔۔  ادھر وہ  بار بار میری منتیں کر رہا تھا کہ باجی بنڈ مارنے دو نا۔۔۔۔  پھر کچھ سوچ کر میں نے شبی کی طرف دیکھا اور اس سے کہنے لگی۔۔۔ ٹھیک ہے بھائی میں تم کو اپنی بنڈ مارنے دوں گی ۔۔ لیکن میر ی ایک شرط ہو گی  تو وہ بے تابی سے بولا۔۔۔ کیا شرط باجی؟۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ آئیندہ    سے  نہ تو تم کسی کو اپنی بنڈ  دو  گے اور نہ ہی کسی لڑکے کی بنڈ  مارو  گے۔۔۔۔ جب بھی تمہارا جی چاہے        تم  میری بنڈ  مار  لینا۔۔۔ میری بات سن کر وہ  کہنے لگا۔۔۔ ٹھیک ہے باجی ۔۔۔ مجھے آپ کی شرط منظور ہے ۔۔۔  اس کے ساتھ ہی اس نے   مجھے  گھوڑی بننے کو کہا ۔۔۔ اس کی  بات سن کر میں اپنا منہ کھُڈے کی دوسری طرف کیا ۔۔۔اور  اس کے سامنے گانڈ کر کے بولی۔۔۔  لے  مار  لے میرے  بھائی۔۔۔   میری بات ختم ہوتے ہی ۔۔۔گھٹنوں کے بل  چلتا  ہوا  شبی  عین  میری  ہپس کے  پیچھے     آ کر کھڑا  ہوگیا۔۔۔۔ اور مجھے  اپنی  دونوں ٹانگیں کھولنے کو کہا۔۔۔۔ اور جب میں نے  اپنی دونوں ٹانگیں کھول دیں تو اس نے  اپنی انگلیوں کی مدد سے  میری گانڈ کے دونو ں پٹ کھولے اور  ان کا   معائینہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔ باجی آپ کی  بنڈ تو  بڑی کالی  اور سوکھی  ہوئی  ہے۔۔۔ اس کی  بات  مجھے اچھی نہیں  لگی اور میں نے  اپنا  منہ پیچھے کیا اور اس  سے بولی۔۔۔۔ اگر میری بنڈ اتنی ہی کالی  اور سوکھی  ہے ۔۔۔تو پھر   کسی اور کی جا کر  مار لو۔۔۔۔  میری یہ جلی کٹی  بات     سنتے  ہی    بھائی کھسیانہ  سا   ہو گیا ۔۔۔۔اور   ہنستے ہوئے بولا۔۔۔۔ وہ  ۔۔وہ باجی میں تو مزاق کر رہا  تھا۔۔۔۔ آپ کی بنڈ تو بڑی سیکسی اور کافی تنگ   ہے۔۔۔ پھر اس کے ساتھ ہی اس نے میری گانڈ کے رنگ  پر  بہت سارا تھوک لگایا ۔۔۔۔اور کچھ اپنے لن پر لگا کر ۔۔۔۔ اس کے  ٹوپ کو  میری بنڈ کے درمیان  رکھ دیا۔۔۔اور  اس کے ساتھ ہی اس نے ایک ذور دار گھسہ  مارا۔۔۔۔۔چونکہ یہ  میری پہلی بار تھی اوپر سے یہ بھی حقیقت ہے کہ واقعی   اس  وقت   میری گانڈ   بڑی   ہی  تنگ تھی۔۔اوپر  سے  بھائی نے  پہلا گھسہ بجائے آرام سے مارنے کے ۔۔۔۔فل پاور سے مارا تھا ۔۔۔  اس لیئے ۔۔۔  بھائی کا گھسہ لگتے ہی میری آنکھوں کے سامنے نیلے پیلے تارے سے ناچنے لگ گئے اور مجھے ایسا لگا کہ  کسی نے بہت بڑا لوہے کا پائپ میری گانڈ میں گھسا دیا  ہو۔۔مجھے اس قدر  شدید درد محسوس ہوا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس درد کی شدت سے  خود بخود ہی میرے منہ سے ایک  زور دار  چیخ  نکل گئی۔۔۔۔ اؤئی۔۔۔۔۔ امی جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے حلق سے نکلنے  والی چیخ اتنی بلند تھی کہ  وہ کھڈے  کا حدود  دربہ   کراس کرتے  ہوئے  نیچے گھر میں بھی سنی  گئی۔۔۔  عین اسی وقت  نیچے  سے ابا  جو کسی کام سے  ابھی گھر میں داخل ہی ہوئے تھے۔۔۔چیخ  سن کر  بڑی ہی  گھبرائی  ہوئی آواز   میں   بولے۔۔۔   ۔۔اوپر کون ہے؟۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔ کیا ہوا صبو  پُتر۔۔۔؟؟۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ ۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ  ہی ۔۔۔ دگڑ دگڑ ۔دگڑ کی آوازیں   آنے لگیں   ابا  بڑی  تیزی کے ساتھ  سیڑھیاں  چڑھنے   لگے تھے۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر ابا  کی آواز  سنتے    ہی   میری اور  شبی کی  حالت غیر ہو  گئی تھی۔۔۔۔اوپر سے ان کے  سیڑھیاں چڑھنے کی آواز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے جیسے  یہ آواز  نزدیک آتی جا رہی تھی ۔۔۔ ویسے ویسے ہم دونوں کی اپنی  جان نکلتی  ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔پھر یہ آواز  قریب  ہوتی  گئی ۔۔۔قریب ۔۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔ قریب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


......................... جاری ہے...................................