میں بڑے مزے سے اپنی انگلیوں پر لگی منی کو چاٹ رہی تھی کہ ۔۔ اچانک پیچھے سے کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ اس وقت میں اپنی انگلیاں چاٹنے میں اتنی محو تھی کہ جیسے ہی کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔ میں ایک دم سے اچھل پڑی ۔۔۔۔ اور پیچھے مُڑ کر دیکھا تو وہ ماموں تھے جو اس وقت گڈی باجی کے ساتھ کاروائی ڈال کے اپس آئے تھے۔۔۔ اور میرے خیال میں گڈی باجی نے ان
سے کافی مشقت لی تھی تبھی تو ماموں کے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار بڑے واضع نظر تھے ۔۔ادھر میرے یوں اچھلنے پر وہ کچھ حیران ہو کر کہنے لگے ۔۔ کیا ہوا ؟؟۔۔ تو میں نے بات کو گول کرتے ہوئے بڑے سرسری سے لہجے میں ان سے کہا کہ کچھ نہیں ماموں جان میں اپنی ہی کسی سوچ میں گم تھی۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے ان کو باہر کی طرف چلنے کا اشارہ کر دیا ۔۔۔۔۔ اور میرا اشارہ پا کر ڈھیلے ڈھیلے انداز میں چلتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھنا شروع ہو گئے ۔۔۔۔۔ ماموں کو تھکاوٹ سے چُور دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا ۔۔۔۔۔۔اور آخر میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ کیا بات ہے ماموں ۔۔۔ لگتا ہے کہ آج گڈی باجی نے آپ سے کچھ زیادہ ہی مشقت لے لی ہے ۔۔ میری بات سن کر ماموں ہنس کر بولے ۔۔۔ ہاں یار کچھ ایسا ہی ہے اتنے میں ہمارا گیٹ آ گیا اور ماموں گیٹ کھول کر تھکے تھکے قدموں سے گھر سے باہر نکل گئے۔۔




مامون کے جانے کے بعد میں سیدھی کچن میں چلی گئی اور دوپہر کے کھانے کا بندبست کرنے لگی ۔۔ کچھ دیر بعد ہی عافیہ بھی میرے پاس آگئی۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا ۔۔ ہاں عافیہ۔۔۔ سٹور روم کو ٹھیک کر دیا۔۔۔۔ تو اس پر عافیہ نے میری طرف دیکھ کر آنکھ ماردی۔۔۔۔۔ اور پھر کہنے لگی ۔۔۔ سٹور روم کا تو پتہ نہیں باجی ۔ ۔۔۔ البتہ آپ کے بھائی نے ( اپنے پھدی کی طرف اشارہ کر کے) اس کو اے ون کر دیا ہے۔۔۔ اس کی بات سن کر میں ہنس پڑی تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ باجی میں ابھی نہا کر آتی ہوں ۔۔۔ اس طرح اگلے چند دن عافیہ اور بھائی نے میری نگرانی میں خوب خوب مستی کی ۔۔۔ پھر کچھ دن بعد بڑے ماموں عافیہ کو لینے کے لیئے آ گئے۔۔۔ اور پھر عافیہ کے جانے کے دو دن بعد بھائی بھی واپس گھر چلا گیا۔۔۔۔۔




اسی طرح دن گزرتے گئے ۔۔۔۔ پھر ایک دن کی بات ہے کہ بڑی خالہ جان اپنے واش روم میں نہا رہیں تھیں کہ اچانک وہ پھسل کر گر پڑیں۔۔۔۔اور ان کے اس طرح گرنے سے ان کے " چوُکلے " کی ہڈی ٹوٹ گئی۔۔۔ گھر میں شور مچ گیا اور عدنان انہیں لیکر کر لا ہور چلے گئے ۔۔۔۔ جہاں پر میو ہسپتال میں ان کی ہڈی کو جوڑ دیا گیا ۔۔۔ لیکن اس کے باوجود بھی خالہ ساری رات درد کے مارے کراہتی رہیتں تھیں۔۔۔۔۔ درد کے ساتھ ساتھ خالہ کو بلڈ پریشر اور شوگر کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا۔۔۔۔ اور ڈاکٹروں نے اس بات کی سختی سے تاکید کی تھی کہ صبع شام ان کا بلڈ پریشر چیک کر کے اس کا چارٹ بنایا جائے ۔۔ اس کے ساتھ ڈاکٹروں نے تکلیف کی وجہ سے سے ان کو دن رات پین کلر کا ٹیکہ بھی تجویز کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کام کے لیئے عدنان کے دوست سمیع جو کہ ہمارے محلے سے تھوڑی دور مین بازار میں کلینک کرتا تھا ۔۔ کی خدمات حاصل کی گئیں ۔۔۔خالہ کو چیک کرتے ہوئے سمیع نے بھائی کو بتلایا کہ چونکہ دن کے ٹائم وہ ایک سرکاری ہسپتال میں میل نرس کا کام کرتا ہے ۔۔اس لیئے وہ دن کے وقت خالہ کا بلڈ پریشر نہیں چیک کر سکے گا ہاں ہر شام وہ یہ خدمات ضرور سر انجام دے گا ۔۔ عدنان کا دوست ہونے کی وجہ سے میرا سمیع سے کوئی پردہ نہ تھا اس لیئے میری موجودگی میں اس نے عدنان کو بتلایا کہ دن کے وقت اس کا چھوٹا بھائی ۔۔۔۔کاشی کہ جسے سب لوگ پیار سے چھوٹے میاں کہتے تھے۔۔۔ اور جو میٹرک کے بعد آج کل فارغ تھا ۔اس لیئے وہ دن کے وقت کلینک پر ہوتا تھا ۔۔۔ سمیع کہنے لگا کہ چھوٹے میاں ۔۔۔۔۔روزانہ آ کر نہ صرف یہ کہ خالہ جان کو پین کلر ٹیکا بھی لگا جائے گا بلکہ ان کا بلڈ پریشر بھی چیک کر چارٹ ہر لکھ جایا کرے گا ۔۔۔ پھر کہنے لگا کہ اب مجھے اجازت دیں ۔۔۔۔۔ کل صبع چھوٹے میاں آپ کے گھر آجائے گا۔۔۔۔ ۔۔۔ اس پر عدنان نے اس سے پوچھا کہ دیکھ لو یار ۔۔۔ کاشی بہت چھوٹا ہے وہ یہ کام آسانی سے کر لے گا؟ عدنان کی بات سن کر سمیع کہنے لگا۔۔۔۔۔ اس بات کی تم فکر نہیں کرو ۔۔۔یہ میری ذمہ داری ہے۔۔۔




دوسری طرف خالہ کی دیکھ بھال کے لیئے میں اور گڈی باجی نے آپس میں اپنے اپنے اوقاتِ کار طے کر لیئے تھے ۔۔۔ چونکہ صبع کے وقت میں فری ہوتی تھی اور گڈی باجی گھر کا کھانا وغیرہ بنایا کرتی تھی اس لیئے خالہ کے ساتھ صبع کے وقت رہنے کی میں نے ڈیوٹی سنبھال لی تھی ۔۔۔۔۔اسی طرح شام کے بعد اگلی صبع تک گڈی باجی نے خالہ کو سنبھالنا ہوتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اگلے دن کی بات ہے کہ میں اس وقت صحن میں بیٹھی گڈی باجی کے ساتھ سبزی چھیل رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔۔ دستک کی آواز سن کر میں اُٹھی اور باہر جا کر دروازہ کھول دیا۔۔۔ اور دیکھا تو ایک چھوٹا سا لڑکا کہ جس کا رنگ گورا۔۔۔ سرخی مائل ہونٹ ۔۔۔۔ چھریرا سا بدن ۔۔۔۔اور جس کے معصوم سے چہرے پر چھوٹے چھوٹے بال بھی تھے۔۔۔ سر پر کسی مدرسے کی پگڑی پہنے ہاتھ میں بلڈ پریشر کا آلہ پکڑے کھڑا تھا۔۔۔ مجھے دیکھ کر وہ تھوڑا سا گھبرا گیا اور کہنے لگا۔۔۔کہ عدنان صاحب کا گھر یہی ہے تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔تب وہ کہنے لگا۔۔۔ کہ اس کا نام کاشی ہے اور وہ ڈاکٹر سمیع کا چھوٹا بھائی ہے۔۔۔ اور وہ اماں جی کو ٹیکہ لگانے اور ان کا بلڈ پریشر چیک کرنے آیا ہے ۔۔۔ کاشی کے منہ سے اپنا نام سن کر مجھے یاد آ گیا کہ رات اس کے بھائی نے اسی کے بارے میں بتایا تھا ۔ اس لیئے میں ایک طرف کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔۔اور اسے اندر آنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ اور پھر اس کو اپنے ساتھ لیئے ۔۔۔ خالہ جی کے کمرے میں لے آئی۔۔۔ جہاں پر وہ ۔۔۔ خالہ کا بلڈ پریشر اور میں اس کو چیک کرنے لگی۔۔۔ ۔۔۔۔ بلا شبہ 15/ 16 سال کا وہ لڑکا بہت ہی معصوم اور بڑا ہی کیوٹ سا تھا۔۔۔۔ بلڈ پریشر چیک کرتے ہوئے میں نے اس کا تھوڑا سا انٹرویو لیا۔۔۔ تو میرے ہر سوال پر اس نے بڑے شرما شرما کر جواب دیئے۔۔۔اس کی لڑکیوں کی طرح شرمانے کی ادا پر میں قربان ہو گئی ۔۔۔۔۔اور ویسے بھی ایسی سویٹ ٹافی کو بھلا کون چھوڑتا ہے؟ اس لیئے اس کی طرف دیکھتے ہوئے میرے اندر ایک کھچڑی سی پکنے لگی۔۔۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے اس بات کا بھی احساس تھا کہ یہ لڑکا عدنان کے بیسٹ فرینڈ کا چھوٹا بھائی ہے اس لیئے۔۔۔ اس کے ساتھ کچھ بھی کرتے وقت ۔۔۔ مجھے ہر پہلو کو مدِ نظر رکھنا ہو گا۔۔۔۔ خیر اس دن تو وہ چلا گیا ۔۔ لیکن میرے اندر ایک ہل چل سی مچا گیا ۔۔۔۔ اسے دیکھ کر گڈی باجی بھی نہ رہ سکی اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ میری جان لڑکا تو بہت چکنا ہے ۔۔۔۔اس پر میں نے بھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔۔




اس کے بعد حسبِ پروگرام روزانہ ہی اس لڑکے نے ہمارے گھر آنا شروع کر دیا ۔۔۔اور اس مولوی ٹائپ بچے کو دیکھ کر روز ہی میں۔۔۔۔۔ اپنے ۔۔۔۔۔ ارادے بناتی اور۔۔۔۔۔۔ روز ہی۔۔۔ انہیں توڑتی رہی۔۔۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں ۔۔ کیونکہ یا تو اس لڑکے کو اپنے بھائی کی طرف سے اس بات کی سخت ہدایت تھی کہ اس نے ہم لوگوں کے ساتھ کوئی فالتو بات نہیں کرنی۔۔۔ نگاہ نیچ رکھنی ہے ۔۔۔۔۔ اور بلا بلا۔۔۔۔جبکہ دوسری طرف اس لڑکے کے بارے میں میرے اندر ۔۔۔ کی ہل چل دن بدن تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی اور دوسرے لفظوں میں یہ لڑکا میرے لیئے ایک چیلنچ بنتا جا رہا تھا۔۔۔ وہ فکس ٹائم پر آتا ۔۔خالہ کا بلڈ پریشر چیک کرتا۔۔۔۔ ان کو ٹیکہ لگاتا ۔۔۔اور میرے اصرار پر بھی۔۔وہ چائے شربت نہ پیتا تھا۔۔۔۔۔کہتا تھا کہ بھائی نے سختی کے ساتھ منع کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ چنانچہ جیسے ہی اس کا کام ختم ہوتا وہ بڑی تیزی کے ساتھ واپس چلا جاتا تھا۔۔۔ لیکن کب تک؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔




پھر ایک دن کی بات ہے ۔۔۔ کہ اس وقت میں اس کی طرف سے تقریباً مایوس ہی ہو گئی تھی ۔۔۔ اس لیئے میں نے اسے خالہ کے پاس چھوڑا ۔۔اور خود ہانڈی دیکھنے کے لیئے کچن میں چلی گئی کیونکہ اس دن گڈی باجی اپنے کمرے میں ماموں کے ساتھ مصروف تھی۔۔۔۔کچن سے واپسی پر میں خالہ کے کمرے میں جا رہی تھی کہ اچانک ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے دروازے پر رکُنا پڑا ۔۔۔ کیا دیکھتی ہوں کہ چھوٹے میاں نے خالہ کے بازو پر بلڈ پریشر چیک کرنے والا آلہ لگایا ہوا تھا ۔۔۔ لیکن اس لڑکے کو ایک نظر دیکھ کر ہی میں سمجھ گئی تھی ۔۔۔۔۔کہ اس لڑکے کا دھیان بلڈ پریشر کی طرف نہیں ۔۔۔ بلکہ کہیں اور ہے۔۔۔۔ اور پھر میں نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو ۔۔۔ میں حیران رہ گئی۔۔۔۔ کیا دیکھتی ہوں کہ۔۔۔۔ چھوٹے میاں کی نظریں ۔۔بلڈ پریشر کے آلے کی طرف کم اور ۔۔۔۔۔۔۔ خالہ کے کھلے گلے کی طرف زیادہ تھیں۔یہاں پر میں مختصراً اپنے قارئین کو بتاتی چلوں کہ اس عمر میں بھی خالہ کی چھاتیوں بہت سخت اور شاندار تھیں جنہیں دیکھ کر کوئی بھی شخص پاگل ہو سکتا تھا اور ۔۔۔۔ یہ تو بے چارہ ایک چھوٹا سا لڑکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ اس دن گڈی باجی نے خالہ کو کپڑے تبدیل کروائے تھے۔۔۔اور شاید وہ خالہ کو قمیض پہناتے وقت اس کا اوپر والا بٹن لگانا بھول گئی تھی۔۔۔اور دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ خالہ کی چھاتیاں بہت سخت تھیں ۔۔۔۔۔اس لیئے گرمیوں کے موسم میں وہ ویسے بھی برا نہیں پہنا کرتی تھی۔۔۔اس لیئے میں نے دیکھا کہ خالہ کی ایک چھاتی ان کی قمیض کے باہر آ کر نپل تک ۔۔۔۔۔۔ نظر آ رہی تھی اور چھوٹے میاں اسے دیکھتے ہوئے بار بار ۔۔۔ اپنے لن کو کھجا رہے تھے ۔۔۔۔۔ اور اس کےساتھ ساتھ جزبات کی شدت سے اس کا کیوٹ چہرہ پہلے سے زیادہ لال ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سین دیکھ کر ایک دم سے میرے زہن میں کاشف میاں کو چودنے کا آئیڈیا آ گیا۔۔اور میں نے چھوٹے میاں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ سالے اب تجھے میرے ہاتھوں سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔۔۔۔۔۔اور پھر اس دن کے بعد میں نے کچھ دن تک کاشف کے ساتھ یہی سین دھرایا ۔۔ اس دن کے بعد اس کے آنے سے پہلے میں بڑی تکنیک سے خالہ کی ایک چھاتی کو ننگا رکھتی تھی ۔۔۔ جہاں تک خالہ کا تعلق ہے تو پین کلر ٹیکے لگنے اور مختلف دوائیاں کھانے کی وجہ سے سے وہ ہمیشہ ہی ادھ موئی رہا کرتی تھیں ۔۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ آتے ساتھ ہی سب سے پہلے کاشف ان کا بلڈ پریشر چیک کرتا تھا ۔۔۔۔ پھر اس کے بعد وہ ان کو پین کلر کا ٹیکا لگا کر ۔۔۔۔ چوری چوری دروازے کی طرف دیکھتا ۔۔۔۔۔اور پھر کسی کو نہ پا کر وہ بڑے غور سے ۔۔۔ خالہ کی ادھ کھلی چھاتیاں کی طرف دیکھ کر اپنے لن کو مسلنا شروع کر دیتا تھا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اور اس کی حالت دیکھ کر میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ ۔۔۔ کلینک جا کر وہ ضرور مُٹھ مارتا ہو گا۔۔ کیونکہ جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوتی تو اسی وقت وہ اپنے لن کو آگے پیچھے کر اپنی ٹانگوں میں دبا کر بھاگ جایا کرتا تھا۔۔۔۔ میں کافی دنوں تک اس کے ساتھ یہی کھیل کیلتی رہی ۔۔۔۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اس بات کو ایک روٹین کا معاملہ سمجھے ۔۔۔


پھر ایک دن کی بات ہے کہ اب مجھے اس بات کا پکا یقین ہو گیا تھا کہ چڑیا جال میں پھنس چکی ہے ۔۔۔ اس لیئے سب سے پہلے تو میں نے گڈی باجی کو اپنے ارادے کے بارے میں بتلایا ۔۔ جسے سن کر وہ جزبات سے بھرے لہجے میں کہنے لگی ۔۔اس کا مطلب ہے کہ آج تم اس چکنے کو چودنے لگی ہو ۔۔۔ اور پھر میری پھدی میں اپنی ایک انگلی کرتے ہوئے بولی۔۔۔جب اس چکنے کا لن اپنے اندر ڈالنے لگو تو مجھ بے چاری کی چوت کو بھی یاد رکھنا ۔۔۔۔۔ تو میں نے ا ن کے گال پہ ایک پپی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ میری جان ۔۔۔۔۔پہلے مجھے تو چود لینے دو۔۔۔ پھر تمہارا بھی سوچیں گے ۔۔۔۔ باجی سے فارغ ہونے کے بعد۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔ اس دن میں نے کاشی کے آنے سے پہلے ہی۔۔۔۔۔ خالہ کو ایک نہایت ہی باریک سا گھسا ہوا ۔۔۔ کاٹن کا کرتہ پہنایا ۔۔ اور پروگرام کے مطابق ان کی چھاتیوں کو آخری حد تک ننگا کر کے ان کو ایسی شیپ دی کہ جس کو دیکھ کر ۔۔۔۔۔ کاشی تو کیا ۔۔۔ اچھا خاصہ جوان مرد بھی اپنے ہوش کھو بیٹھے۔۔۔۔



اس کے آنے تک میں نے گڈی باجی کو بھی اپنے کمرے تک محدود ہونے کا کہہ دیا تھا۔۔۔۔ اور خود کچن میں چلی گئی۔۔۔ پھر جیسے ہی دروازے کی گھنٹی بجی ۔۔۔ میں بڑے آرام سے دروازے تک گئی ۔۔۔۔ لیکن دروازہ کھولتے ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنے منہ ہی منہ میں کچھ اس طرح سے بُڑبڑائی کہ جس سے وہ آسانی کے ساتھ س ن سکے۔۔۔ چنانچہ دروازہ کھولتے ہی میں نے اس سے کہا۔۔۔۔ بیٹا کنڈی لگا لینا کہ میری ہانڈی جلنے والی ہو گئی ہے ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں بھاگتی ہوئی کچن کی طرف چلی گئی۔۔۔ اور چولہے پر رکھی ہوئی ہانڈی میں خواہ مخواہ ہی چمچ مارنے لگی۔۔ اتنے میں گڈی باجی بھی آ گئی اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ اب تم جاؤ۔۔ تو میں نے اس سے کہا۔۔۔۔ اتنی جلدی بھی کیا ہے۔۔ ابھی تو پہلے اس نے خالہ کا بلڈ پریشر چیک کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ان کو پین کلر ٹیکا لگائے گا۔۔۔ اور اس کے بعد۔۔۔ وہ ان کی چھاتیوں کا نظارے لے گا۔۔۔



پھر کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد میں نے پاس پڑی ہوئی چادر کو اُٹھایا اور اپنے جسم پر اچھی طرح لپیٹنے کے بعد میں نے گڈی باجی کو آنکھ ماری اور وہاں سے چل پڑی۔۔۔ خالہ کے کمرے کے پاس آ کر میں نے اک زرا سا جھانک کر دیکھا ۔۔۔تو میرا تیر نشانے پر بیٹھ چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت چھوٹے میاں اپنی شلوار کے اوپر سے ہی اپنے لن کو پکڑ کر خالہ کی چھاتیوں کی طرف دیکھتے ہوئے اسے بری طرح سے ہلا رہے تھے۔۔۔ اور میں اس کی شلوار کے ابھار کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے لن کی لمبائی اور موٹائی کا اندازہ لگا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔اور دروازے کی ایک سائیڈ سے اندر کی طرف جھانک رہی تھی ۔۔۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے ۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹے میاں نے ایک نظر دروازے کی طرف دیکھا ۔۔۔ اس وقت اس کا چہرہ جزبات کی شدت سے تپا ہوا تھا۔۔۔اور وہ ایک بار خالہ کی چھاتیوں کی طرف دیکھ کر اپنے ہوٹنوں پر زبان پھیرتا ۔۔۔اور پھر ۔۔دوسری نگاہ ۔۔۔۔ دروازے کی طرف ڈالتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ ان چھاتیوں کو چھونا چاہ رہا تھا ۔۔۔۔ ادھر یہ سوچ کرکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری منزل نزدیک آ گئی ہے۔۔۔۔ میرا دل کنپٹیوں میں دھڑکنے لگا۔۔۔۔۔اور اس کے لن کے بارے میں سوچتے ہوئے میرا حلق بھی خشک ہو گیا۔۔۔۔۔اور اس سے قبل کہ میں بھی جزبات کی شدت میں کچھ کر بیٹھتی ۔۔۔ جلدی سے میں نے اپنے آپ پر قابو پایا ۔۔۔اور اندر کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں پر چھوٹے میاں اپنے جزبات کے ہاتھوں سے مجبور ہو کر ۔۔۔۔ دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔آگے بڑھ رہے تھے۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ بار بار اپنے تھوک کو بھی اپنے خشک ہوتے ہوئے حلق میں نگھل رہے تھے۔۔۔۔ ۔۔۔اور پھر آخرِ کار وہ سین آ ہی گیا کہ جس کے لیئے میں




نے اتنا انتظام کیا تھا۔۔ ۔۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ چھوٹے میاں آگے بڑھے۔۔۔ اورررررررررررررررررررررر۔۔اب انہوں نے ایک نظر دروازے کی طرف دیکھا اور پھر اپنے ایک کانپتے ہوئے ہاتھ کو خالہ کی ننگی چھاتی پر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ ان کے دوسرے ہاتھ میں لن پکڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دو بار انہوں نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے جھجھک کر خالہ کی چھاتی پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔ کسی کو نہ پا کر وہ تھوڑا ۔۔۔اور شیر ہو گیا۔۔۔۔۔ اس وقت اس کا چہرہ لال ٹماٹر ہو رہا تھا۔۔ اور میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر کشمکش کے واضع آثار نظر آ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ اس کا خالہ کی چھاتی پر دھرا ہاتھ ۔۔۔ بری طرح سے کانپ رہا تھا۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں آگے بڑھنے ہی لگی تھی۔۔۔۔۔کہ ۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ چھوٹ و میاں ۔۔۔۔۔۔اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بری طرح سے کانپ رہے تھے ۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی خالہ کی چھاتی پر دھرا ان کا ہاتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اپنی شلوار کے نالے کی طرف تھا۔۔۔۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنا نالہ کھول دیا۔۔۔۔ اور قیمض کو اونچا کر دیا۔۔۔ اب میری نظر اس کے لن پر پڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُف ف فف ف ف ف ۔ کیا بتاؤں دوستو۔۔ اس کا لن بہت گورا لیکن اس میں پنک رنگ کی جھلک بہت نمایاں تھی۔۔۔۔ سائز اور موٹائی میں ۔۔۔۔۔ بس ٹھیک ہی تھا۔۔۔۔ خاص کر اس کے ٹوپے کا رنگ ۔۔۔۔ بہت پنک تھا۔لن کے آس پاس سنہرے رنگ کے پتلے پتلے بال تھے ۔۔اور دور سے اس کا لن اتنا کیوٹ لگ رہا تھا۔۔۔ کہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے خود بخود ہی میرے منہ میں پانی بھر آیا ۔۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف اس نے ایک بار پھر دروازے کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اپنے لن پر تھوک لگا کر۔۔۔ جیسے ہی مُٹھ مارنے لگا۔۔۔۔۔ میں نے دھڑام سے دروازہ کھولا۔۔۔۔۔۔۔ اور چھوٹو کی طرف دیکھتے ہوئے میرا چہرے غصے سے لال پیلا ہو گیا۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف چھوٹو میاں ۔۔۔ کے ایک ہاتھ میں لن تھا ۔۔۔ جبکہ اس کا دوسرا ہاتھ خالہ کی چھاتی پر رکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی ۔۔۔۔۔چھوٹو کا رنگ پیلا پڑ گیا۔۔۔۔اور وہ ایسے ہو گیا کہ کاٹو تو لہو نہیں۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ بیدِ مجنوں کی طرح تھر تھر کانپنے لگا۔۔۔ اب میں آگے بڑھی اور اس کے قریب پہنچ کر دھاڑتے ہوئے بولی۔۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ میری دھاڑ سن کر چھوٹو ایک دم ہوش میں آ گیا ۔۔۔اور جلدی سے نیچے جھک کر اپنی شلوار کو اوپر کرنے لگا۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اس کے ہاتھ کو پکڑ لیا۔۔۔۔ اور ایک بار پھر اونچی آواز میں دھاڑی ۔۔۔۔ یہ تم کیا کر رہے تھے کتے کے بچے۔۔۔۔۔۔۔



میری دھاڑ سن کر اس کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے روہانسا ۔۔۔ہو کر کہنے لگا۔۔۔۔ مجھے معاف کر دو باجی۔۔۔۔ اب میں کچھ مزید آگے بڑھی اور اس کے کیوٹ سے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولی۔۔۔۔۔ اس پر تو تھوک لگا ہوا ہے ۔۔۔ پھر اس کی طرف آنکھیں نکالتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ آنے دو عدنان کو ۔۔۔اسے بتاتی ہوں کہ اس کے دوست کا بھائی اس کی امی کی چھاتیوں کو دیکھ کر مُٹھ مار رہا تھا۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے بڑی نرمی کے ساتھ اس کے ادھ موئے لن کو سہلانا شروع کر دیا۔لیکن وہ بد بخت میرا اشارہ نہ سمجھا ۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ میری مُٹھ والی بات کا سن کر اس کے تو فرشتے ہی کوچ کر گئے تھے۔۔۔۔۔ اور اس نے میرے سا منے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے اور زار و قطار روتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ باجی آپ پلیز۔۔۔۔۔۔آپ جو مرضی ہے سزا دے دو ۔۔۔ لیکن عدنا ن بھائی کو مت بتایئے گا۔۔۔ اور یہ بات سن کر بھائی نے ابا سے کہہ کر مجھے گھر سے نکلوا دینا ہے۔۔۔۔ اس پر میں اپنی تیوری کو مزید چڑھاتے ہوئے اس سے کہنے لگی۔۔۔۔۔اچھا ہے نا تم جیسے حرامزادے کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیئے۔۔۔میری بات سن کر وہ میرے قدموں میں گر گیا ۔۔۔وہ روتا جاتا اور یہی بات کہتا جاتا۔۔۔۔ کہ باجی پلیزززززززززززززززززز۔۔ مجھے معاف کر دو۔۔۔ میں نے اسے کچھ دیر تک ایسے ہی رہنے دیا۔۔۔۔ پھر میں نے اپنے لہجے کو نرم کیا اور اس سے بولی۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔۔ میں تمہاری اس کا حرکت عدنان سے تزکرہ نہیں کروں گی۔۔۔۔۔ میری بات سنتے ہی وہ ایک دم سے اُٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتا ہوا بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سچ باجی؟؟؟؟؟؟
 Insect Stories ,     Bhabi Devar     Behan    Chachi 
Mami         Didi       Phopo


لیکن میں نے اس کی  بات کا کوئی  جواب نہیں  دیا۔۔۔۔اور اس کو دھکا  دے کر خالہ  کے پلنگ  کے     پاؤں  کی  طرف گرا دیا۔۔۔اور پھر   اس کی گانڈ کو پلنگ  کے آ خری سرے پر رکھا ۔۔۔۔  جس  سے  اس کی ٹانگیں    نیچے   زمین پر اور گانڈ   پلنگ پر آ گئی۔۔۔ پھر  میں  آگے بڑھی  اور  زبردستی اس  کی  دونوں ٹانگوں کو کھول کر ان کے درمیاں میں   گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔۔۔ اور   اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا میں نے اس کے لن کو پکڑا ۔۔۔اور اسے ہلاتے ہوئے اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔۔اپنے لن کو میرے منہ میں  جاتے  دیکھ  کر  وہ  حکا  بکا  رہ گیا ۔۔۔اور   ایک  دم  سے  پلنگ سے اوپر اُٹھ گیا۔۔۔ اور میری طرف دیکھتے  ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔یہ۔۔۔ آپ کیا کر رہی باجی۔۔۔۔۔۔۔ ؟  ایسا کرنا  تو  گناہ  ہے ۔۔۔۔ اس کے گناہ  والی  بات  سن کر مجھے  ایکد م  تاؤ  آ  گیا  اور  میں  نے  اس کی طرف  دیکھتے  ہوئے  کہا ۔۔اور جو  تم  خالہ  کی چھاتیوں  کے  ساتھ کر  رہے  تھے  وہ کیا    کارِ  ثواب  تھا؟ ۔۔۔ میری بات سن کر وہ ایک دم  شرمندہ  سا  ہو گیا ۔۔اور آئیں  بائیں  شائیں  ۔۔۔۔ کرنے  لگا۔۔۔۔ لیکن  دوسری طرف اس  کا لن  چوستے  ہوئے  مجھے  معلوم  ہو گیا تھا کہ  چھوٹو  میاں کو مزہ آ   رہا  ہے۔۔۔۔ اور   مزے کے ساتھ ساتھ اس کو ڈر بھی  بہت  شدید لگ  رہا  تھا  اس لیئے۔۔۔ میرے  منہ میں گیا   ہوا     اس  کا  لن  بہت     آرام  آرام سے  جان پکڑ  رہا  تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب  میرے  منہ میں پڑے  اس کے  لن نے  تھوڑی  جان  پکڑ  لی۔۔۔۔۔ تو میں نے ایک دم سے اسےاپنے  منہ سے نکلا ۔۔۔۔۔ اور خالہ کی طرف  دیکھتے  ہوئے اپنی  شلوار  اتار دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شلوار اتار کو میں  تھوڑا  پیچھے  کی طرف  گھو می ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور  اپنی  گانڈ کو  پیچھے کرتے  ہوئے۔۔۔عین اس کے لن کی  سیدھ  میں لے آئی۔۔۔اور  پھر ۔۔۔۔ میں   نے  اپنا  ایک  ہاتھ  پیچھ ے کیا ۔۔۔اور چھوٹو  میاں  کے   لن کو  پکڑ کر اپنی چوت  کے لبوں پر ایڈجسٹ کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے  ہی  چھوٹو   میاں کو  اس  بات  کا احساس ہوا کہ  میں اس کے لن کو اپنی چوت میں لینے لگی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ وہ گھبرا کر بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی پلیزززززززززز ۔۔۔۔ایسا نہ کریں ۔۔دروازہ  کھلا ہے   کوئی  آ جائے  گا۔۔۔۔۔اس پر  میں  نے  اس  کی   بات   کو سنی ان سنی کرتے ہوئے اس کے لن  کے  اوپر   بیٹھتے  ہوئے اس  کو  اپنی چوت  میں غائب  کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی میری گرم چوت میں اس کا لن گھسا ۔۔۔۔۔ چھوٹو بیک وقت مزے اور ڈر کے ملے جلے ۔۔۔۔۔ انداز میں کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ با ۔بہ۔۔باجی۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔ دوسری  باجی۔۔۔۔اُف۔۔۔ آ گئی   تو  میں تو  مر جاؤں گا۔۔۔ اس پر میں اس کے لن پر اوپر نیچے ہوتے ہوئے کہا۔۔۔۔ میری طرف  سے تم ابھی  مر جاؤ۔۔۔اور پھر اس  کے  ساتھ ہی اس کے لن پر اُٹھک بیٹھک کرنے لگی۔۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف ۔۔۔۔وہ بار بار  یہی کہتا   رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی پلیز ز۔۔۔ بس کر دیں۔۔۔۔ میرے  بھائی  کو  پتہ چل  گیا  تو  وہ  مجھے  کچا کھا جائے گا۔۔۔۔ باجی ۔۔۔ی ی ی ی ی ی۔۔۔ ایسا  نہ کرو ۔۔۔۔   اس کے  لن  پر  گھسے مارتے  ہوئے  اچانک  مجھے  ایسا  لگا  کہ  میری  چوت  میں پڑا  اس  کا لن ۔۔۔۔۔۔۔ بار بار ۔۔۔  جھٹکے  کھا رہا ہے۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹو میاں   ۔نے ۔۔ میری چوت  میں  اپنے لن  کو  پھنسائے  پھنسائے  اوپر  کو  اُٹھا  اور  مجھے  گھوڑی  بنا کر   پیچھے  سے  میری چوت  کی  دھلائی  شروع کر دی ۔۔۔۔۔اور وہ ہر گھسے پر یہی کہتا باجی تیری ماں کو لن۔۔۔۔  تیرا  پھدا  ماروں۔۔بہن چود گشتی۔۔۔۔۔۔۔  اور پھر  کچھ اس قسم کے  ڈائیلاگ  مارتے  ہوئے   وہ  میرے  اوپر  ہی  گر گیا۔۔۔۔اور  اس  کے لن   سے  پانی نکل نکل کر  میری  چوت کو بھرتا  رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے بعد چھوٹے میاں میرے اور گڈی باجی دونوں کے ساتھ سیٹ ہو گیا۔۔۔اور  ہم نے اس کے ساتھ خوب انجوائے کیا۔۔۔۔ اور خاص کر میں نے اس کے پنک لن کو چوس چوس کر کالا کر دیا۔۔۔۔۔۔۔جہاں  تک   خالہ  جان کا تعلق تھا ۔۔۔۔ تو  اس طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرض بڑھتا گیا ۔۔۔ جوں جوں  دوا کی والا معاملہ ہو  گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور  پھر  چند  ہی  ماہ  میں ہٹی  کٹی  اور  خوبصورت جسم کی  مالک  خالہ  کہ جس  کی چھاتیوں پر کافی لوگوں کی  نگاہ رہتی تھیں ۔۔۔سوکھ  کر  ہڈیوں  کا  ڈ ھانچہ  ہو  گئیں ۔۔۔ اپنی  ماں کو لے کر  عدنان  اور  اس  کا     بھائی  لاہور  کے  ہر  اچھے ہسپتال میں گئے تھے  اور ان کے علاج کے لیئے  کوئی کسر نہ  اُٹھا  رکھی تھی۔۔۔۔آخر  لاہور کے  ایک  بہت بڑے  ڈاکٹر  نے  خالہ کا  علاج  کرنے  سے معزرت  کر دی تھی اورعدنان کو بلا کر بس یہی کہا تھا ۔۔ کہ اپنی امی کی جتنی خدمت کر سکتے ہو کر لو۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اس کے بعد۔۔۔ یہ سن کر دونوں بھائی  خالہ کو لے کر  واپس آ گئے ۔



گھر آ کر خالہ کی حالت  دیکھتے  ہوئے  انہوں  نے  دور  پار  کے سب  رشتے  داروں کو  اس  امر کی  اطلاع  کر  دی تھی۔۔ چنانچہ   اگلے  کچھ  ہی  دنوں میں  ہمارے گھر  میں  رشتے  داروں کا رش ہو گیا۔۔۔۔ یہاں  پر میں آپ سے ایک ایسا قصہ شئیر کرنا چاہتی ہوں جو  کہ   میری زندگی  کا  سب  سے  بڑا ۔۔۔۔ پُر جوش ۔۔۔۔جزباتی اور لرزش سے بھرا۔۔۔ ایسا  واقعہ ہے ۔۔۔ کہ جسے یاد کر کے  آج بھی میری کنپٹی سلگ جاتی ہے۔۔۔۔ اور  وہ  واقعہ  کچھ   یوں  ہے کہ۔۔۔۔جیسا کہ آپ جانتے  ہیں کہ ۔۔ میری  طرح  میرا    بھائی  شبی بھی  بہت سیکسی اور جزباتی لڑکا ہے۔۔۔اور میری طرح جب اس  کے سر پر بھی منی سوار ہو جاتی ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کچھ نہیں دیکھتا ۔۔۔۔۔ چنانچہ ایک دن کی بات ہے کہ اس وقت خالہ کا چل چلاؤ کا وقت چل رہا تھا سارے رشتے دار ان کی چارپائی کے ارد گرد کھڑے تھے۔۔کہ اچانک  پیچھے  سے میرے کندھے کو کسی نے دبایا ۔۔۔۔۔ پیچھے مُڑ کر دیکھا تو ۔۔۔۔۔۔۔وہ شبی تھا جو  مجھے  اس مجمع سے  باہر آنے  کے  لیئے کہہ  رہا  تھا چنانچہ  اس  کا  اشارہ  پا کر میں  لیڈیز  کی صفوں  کو  چیرتے ہوئے باہر آ گئی۔۔۔۔ تو وہ مجھے ایک طرف لے گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کہنے لگا۔۔۔۔ باجی میرا  سیکس پر دل کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس کی  بات سن کر  میں تو   حیران  ہی  رہ  گئی  اور  اس  کی طرف  دیکھتے  ہوئے  کہنے  لگی۔۔۔۔ پاگل ہو  گئے  ہو کیا؟۔۔۔۔ یہ کوئی  موقعہ ہے اس قسم کی  باتوں  کا؟  تو  وہ  بڑا  ہی  سیریس  ہو کر کہنے  لگا ۔۔  مجھے معلوم ہے باجی لیکن کیا کروں؟ میرے  ساتھ  دھوکا  ہوا ہے۔۔۔ اس پر میں نے اس کی طرف چونک کر دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ کیسا  دھوکا؟  تو   وہ شر مندہ سی شکل  بنا کر کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صبع  سے آتے  جاتے  ہوئے  عافیہ میرے ساتھ نہ صرف کسنگ کر  رہی  ہے  بلکہ   اتنہائی   شارٹ پیریڈ کے لیئے  ایک  دو   دفعہ  اس  نے  میرے  لن کو بھی چوسا  ہے۔۔۔۔اس کی  بات سن کر میں نے اس سے کہا  پھر  میں کیا  کروں؟  جاؤ  اس کو فکنگ کے لیئے   راضی   کرو ۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ وہ بڑی حرام دی ہے۔۔۔۔۔کہتی ہے ایک طرف پھوپھو جان مر رہی ہیں اور تم کو میرے ساتھ فکنگ کی پڑی ہے ۔۔۔ پھر اس  نے  میری  طرف  دیکھا  اور  کہنے  لگا۔۔۔۔ باجی  پلیززززززززززز۔۔۔۔ میرا کچھ کر  دو۔۔۔ ورنہ  میں مر  جاؤں  گا۔۔۔جیسا کہ آپ  لوگ اچھی طرح  سے جانتے ہیں کہ میں  اپنے  بھائی    کی  بہت بڑی عاشق ہوں اور کبھی بھی اس کی کسی بات کو رد نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔ لیکن  اس وقت  صورتِ  حال ہی  کچھ  ایسی تھی ۔۔۔کہ  میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ادھر  دوسری  طرف  بھائی   بار  بار  میری منت سماجت کر رہا تھا۔۔۔۔ اور پھر آخری حربے کے طور پر اس نے  میرے ہاتھ کو پکڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اپنے تنے ہوئے لن پر رکھ کر بولا۔۔۔۔۔ میرا  نہیں  تو  باجی پلیززززززززززز ۔۔کچھ  اس  کا  ہی  خیال کرو۔۔  ادھر  جیسے ہی میں نے اس کے لن کو  اپنے ہاتھ  میں  پکڑا ۔۔۔۔۔۔۔میں سمجھ گئی کہ شبی صاحب کو چڑھی ہوئی  ہے اور وہ لیئے بگیر نہیں ٹلے گا اس لیئے۔ میں نے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔  یہ بتاؤ کریں گے کہاں؟۔۔ مجھے تو ہر طرف مہمان ہی مہمان نظر آ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر بھائی کے چہرے پر  ایک شیطانی سی مسکراہٹ دوڑ  گئی۔۔۔اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔جی  وہ  میں نے پہلے سے ہی سوچا  ہوا  ہے۔۔ پھر  خود ہی کہنے لگا۔۔۔۔ اوپر ممٹی کے ساتھ  والا کمرہ  خالی  ہے میں  وہاں  جا رہا  ہوں ۔۔۔ تھوڑی  دیر بعد تم بھی وہیں  آ جانا۔۔۔  اس پ ر میں  نے ہاں میں سر ہلایا اور   بھائی  وہاں سے  نو  دو  گیارہ   ہو  گیا۔۔۔۔۔۔



بھائی کے جانے کے بعد میں نے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔سب خواتین چارپائی کے ارد گرد بیٹھی گپیں  لگا  رہیں تھیں اور چند  ایک تو  میں نے  دبے  دبے  انداز  میں  ہنستے  ہوئے  بھی  دیکھاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سب دیکھتے ہوئے میں نے  بڑے  ہی  محتاط  انداز میں  سیڑھیوں کی طرف کھسکنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔   سیڑھیوں کی طرف بڑھتے ہوئے  میرا  ماتھا  پسینے  سے  شرابور  تھا۔۔۔۔اور  میرے پاؤں ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے۔۔۔۔ اور میں بڑی ہی محا ط      اور خوف بھری نظروں سے ادھر ادھر  دیکھتے  ہوئے  سیڑھیوں کی طرف  بڑھ رہی تھی۔۔۔۔ خوف  زدہ  میں  اس لیئے تھی ۔۔۔  کہ اس وقت فیملی سے سارے ہی لوگ ۔۔۔  گھر پر موجود تھے۔۔۔او ر خاص کر ہماری فیملی کی لیڈیز بہت ہی جاسوس ٹائپ  کی تھیں ۔۔۔۔ اور مجھے اچھی طرح سے معلوم تھا کہ   بھائی کے ساتھ چودائی کرتے ہوئے اگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں پکڑی گئی۔۔۔۔ تو میرے اور بھائی کے لیئے سیدھی گولی  تیار تھی۔۔۔کیونکہ جیسا کہ آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ  میری فیملی کے لوگ غیر لکچدار ۔۔۔اور کٹٹر قسم کے لوگ  تھے۔۔۔  لیکن  جیسا  کہ آپ  کو معلوم  ہی  ہے کہ ۔۔۔۔ جب  سر پر منی سوار ہو جاتی ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ بڑے سے بڑا رسک لے لیتا ہے۔۔۔



ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ میں بڑے ہی محتاط انداز میں  چلتی ہوئی آخرِ کار سیڑھیوں کے  قریب پہنچ ہی گئی۔۔۔اور پھر میں نے دیکھا کہ  ہمارے گھر میں  اچانک  ہی ایک  بڑا           ہی  معتبر اور ٹھوسے دار  آدمی  داخل  ہوا ۔۔۔ یہ شخص ۔۔رشتے  میں  خالہ کا  دیور  لگتا  تھا۔۔۔ اور اچھی  خاصی  موٹی آسامی  ہونے کی وجہ  سے   اسے دیکھتے  ہی  سب  لوگ اپنی  اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر اس کی طرف بڑھنے لگے۔۔۔۔اپنی لیئے یہ غیبی مدد دیکھ کر میں   دھیمے انداز میں چلتی ہوئے اوپر پہنچ گئی۔۔۔ دیکھاتو  ممٹی کے ساتھ والے دروازے پر بھائی کھڑا تھا ۔۔۔ مجھے  دیکھتے  ہی  وہ  اندر  غائب  ہو گیا۔۔۔اور پھر تھوڑی دیر بعد میں بھی ادھر ادھر دیکھتے ہوئے  اس  کمرے کے اندر داخل ہو گئی ۔۔۔ دروازے کے ساتھ ہی ایک کھڑکی بنی ہوئی تھی  کہ جہاں سے  ہمارے صحن کا  سارا  منظر  صاف  نظر آتا  تھا  ۔۔۔ چنانچہ میں چلتی ہوئی اس کھڑکی کے پاس پہنچی اور کھڑکی پر دونوں ہاتھ رکھ کر اپنی گانڈ کو پیچھے کی طرف کر لیا۔۔۔ اور  سر گوشی کرتے ہوئے بھائی سے بولی۔۔۔۔ جلدی سے چود۔۔۔۔۔۔۔  میری بات سن کر بھائی  نے دروازے کو  ڈھو  دیا اور  میرے پیچھے کھڑے ہو کر اس نے میری شلوار اتار دی۔۔۔اور  اپنا لن نکال کر میری چوت کے لبوں پر رکھ کر بولا۔۔۔۔۔۔۔ بہت شکریہ باجی۔۔تو میں نے اس کی طرف منہ کرتے ہوئے  سرگوشی کی کہ ۔۔۔ شکریہ بعد میں ادا کردیا ۔۔۔۔ پہلے  اپنے لن کو ٹھنڈا کر لو۔۔۔۔۔ میری  بات  سنتے  ہی  اس نے  اپنے  لن  پر تھوک لگایا  اور میری چوت کے لبوں پر رکھ کر ہلکا سا دھکا  لگا  دیا ۔۔۔ جس سے اس کا لن پھسل کر میری چوت میں داخل ہو گیا ۔۔۔اور میرے منہ سے ایک ہلکی سے سسکی نکل گئی۔۔۔ جبکہ دوسری طرف وہ میری سسکی سے بے نیاز  ۔۔۔۔۔۔۔بھائی میری چوت تیزی کے ساتھ اپنے لن کو ان آؤٹ کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن چند ہی گھسے مارنے کے بعد وہ کہنے لگا۔۔۔ باجی مزہ نہیں آ رہا۔۔۔ تومیں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سخت لہجے میں بولی ۔۔۔۔ چو د  سالے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مزہ  بعد میں لے لینا۔۔۔ تو  وہ  کہنے  لگا۔۔۔ایسا  لگ  رہا  ہے کہ  جیسے  کہ  میں کسی  بے  جان  مورتی  کو چود  رہا    ہوں۔اس پر میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔ یقین کرو  تمہاری طرح مجھ پر بھی شہوت سوارہو  چکی ہے ۔۔ لیکن کیا کروں   نا چاہتے ہوئے بھی ۔۔۔  میری نظر نیچے کی طرف گھوم جاتی ہے اور پھر  ڈر  کے  مارے میں بے جان مورتی بن جاتی ہوں ۔۔ میری بات سن کر اس نے  اس نے مجھے  چہرے سے پکڑاور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔باجی۔۔۔۔۔ اپنی پھدی میں تھوڑا پانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو  لاؤ۔۔۔۔ اس طرح  لن آتے جاتے ہوئے پچ پچ کرے گا تو مزہ آئے گا۔۔۔۔ اس پر میں نے نیچے بیٹھ گئی اور اس کے لن کو منہ میں لے لیا۔۔۔  جیسا کہ آپ لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اس کا لن میری بہت بڑی کمزوری ہے اس لیئے۔۔۔ تھوڑے سے چوپے کے بعد ہی میری چوت گیلی ہوگئی۔۔اور میں نے  نیچے  ہاتھ مارتے ہوئے  کھڑکی کے پاس کھڑکی کے پاس  گھوڑی  بن گئی  اور  بولی ۔۔۔۔ چل اب مار ۔۔۔ پچ پچ ہو گی۔۔۔۔۔  لیکن میرا جملہ  مکمل ہونے سے قبل ہی بھائی اپنے لن کر میری چوت میں داخل کر چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس دفعہ واقعہ ہی  گھسے مارتے ہوئے میری چوت پچ پچ کر رہی تھی۔۔۔۔۔ادھر گھسے مارتے ہوئے اچانک ہی  میری چوت نے بھائی کے لن کو اپنی طرف بھینچنا  شروع کر دیا۔۔۔۔۔ اور پھر ایک دو گھسوں کے بعد ہم  دونوں  اکھٹے  ہی چھوٹ  گئےتھے۔۔۔۔جیسے ہی  میں نے بھائی کا لن نکال کر اپنی پھدی صاف کی اچانک ہی نیچے سے چیخوں کی صدائیں بلند ہونے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


 خالہ کے مرنے کے بعد میں نے  اپنے قصبے کے سب سے بڑے پرائیویٹ سکول میں  بطور ٹیچر جاب شروع کر دی تھی۔۔۔  ٹیچنگ کے لیئے میں نے گڈی باجی کو بھی بہت قائل کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے انکار  کر دیا۔۔۔   پھر ایک دن کی بات ہے کہ میں  اماں سے ملنے اپنے قصبے میں گئی ۔۔۔تو وہاں پر شبی بھی موجود تھا۔۔۔اور میں نے نوٹ کیا کہ  وہ ہر وقت اپنے موبائل کےساتھ لگا رہتا تھا۔۔۔اس پر میں نے جب  اس سے پوچھا ۔۔کہ تمہارے موبائل میں  ایسی کیا بات ہے کہ جب سے میں آئی ہوں تم اسی میں مگن رہتے ہو۔۔ میری بات سن کر پہلے تو اس نے صاف انکار کر دیا ۔۔کہ ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تنہائی ملتے ہی اس نے مجھے اس سائیٹ کے بارے میں بتلایا  ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ یہاں پر بڑی کوالٹی کی جنسی کہانیاں  ہوتی  ہیں ۔۔۔ ۔۔۔  اس   کے  بعد  اس نے  میری  طرف  دیکھا اور کہنے لگا ۔۔۔۔۔ ایک بات  بتاؤں باجی ؟ تو میں نے اس سے کہا کہ بولو؟؟؟؟؟  تو  وہ  کہنے  لگا۔۔۔۔۔باجی  یہاں  پر  محروماتِ ممنوعہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کے انسیسٹ  کہانیاں بھی ہوتی ہیں ۔۔ اس کی  بات سن کر ر ئیلی اس وقت میں بڑی حیران ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے  بڑی ہی بے یقنی سے کہنے لگی۔۔۔ کیا ؟؟؟؟؟؟؟   تو  وہ ہنس کر بولا۔۔۔۔۔۔۔ میں درست کہہ  رہا  ہوں  باجی ۔۔۔   پھر کہنے  لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ زرا  ان           کہانیوں کو  پڑھ  کر   تو دیکھو کہ اس  دنیا  میں۔۔صرف میں   اور آپ  ہی ایسے بہن  بھائی نہیں  ہیں کہ  جنہوں نے آپس میں   سیکس کیاہے۔۔ ۔۔۔۔۔ بلکہ۔۔۔۔۔۔  ہمارے علاوہ بھی  بہت  زیادہ  لوگ موجود  ہیں ۔۔۔تو  میں نے اس سے کہا۔۔۔ کہ وہ  سکتا ہے کہ وہ جھوٹ  لکھ رہے ہوں ۔۔۔۔ تو بھائی مسکرا کے کہنے لگا ۔۔۔۔ ہاں ممکن ہے۔۔ لیکن باجی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسیسٹ   کہانیاں ہوتی  بڑی زبردست ہیں۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس  میرے موبائل پر  انٹرنیٹ  کا   پیکج  لگا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر  یہ والی سائیڈ کھول کر بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  باجی پڑھ کے بتانا کہ کیسی لگی۔۔۔۔۔



بھائی کے کہنے پر میں نے  اس  سائیڈ پر   پڑی  ساری  ہی  کہانیاں  پڑھ  لیں ۔۔۔  ان  میں  مجھے  خاص  کر  بڑی  بہن  اور چھوٹے  بھائی کا سیکس پڑھ کر بڑا  مزہ آتا تھا ۔۔۔ اور یہ  کہانیاں  پڑھتے ہوئے میں  ان کرداروں  کو ہٹا کر بھائی اور اپنے آپ کو وہاں رکھ  کر پڑھا کرتی تھی ۔۔۔ جس  کے پڑھنے سے میرے اندر نیا جنون اور جوش  بڑھتا  جاتا  تھا ۔۔۔ اور  پھر آہستہ آہستہ میں نے اس سائیڈ پر پڑی ساری کہانیوں کو پڑھ ڈالا ۔۔۔۔۔۔۔۔میں ان کہانیوں کو پڑھ کر خوب انجوائے کرتی تھی۔۔۔۔  پھر ایک دن کی بات ہے کہ میں اماں سے ملنے گئی ہوئی تھی  بھائی  گھر پر نہیں  تھا ۔۔۔ اس لیئے میں اور  زینی  آپس میں گپ شپ لگا  رہیں تھیں کہ  ہوتے  ہوتے بات سیکس تک پہنچ گئی۔۔۔اور زینی مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ باجی  بھائی  نے  مجھے  بتایا تھا کہ ۔۔۔ آپ بھی  جنسی کہانیاں  بڑے  شوق  سے پڑھتی ہو۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ کیا بتاؤں زینی یار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو  ان  کہانیوں کی  دیوانی  ہو گئی  ہوں ۔۔۔   اس پر زینی مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ دیوانی تو میں بھی ہوں ۔۔۔۔ پھر تھوڑا وقفہ دے کر کہنے لگی ۔۔۔ کیا خیال ہے باجی یہ سب سچ ہو گا؟ تو میں نے اس سے کہا کہ۔۔ سارا تو نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ میرے خیال میں ان میں آدھا  سچ  ضرور  ہونا  چاہیئے۔۔۔۔ اس پر زینی کہنے لگی۔۔۔ جیسے  ہماری سٹوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اس کے بعد وہ  پُر جوش سی  ہو کر کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی اگر ہم لوگ بھی   اپنی  کہانی کو  لکھیں تو   کیسا  لگے گا؟  اس  پر  میں  نے اس کی طرف پُر خیال نظروں سے  دیکھتے ہوئے  کہا۔۔۔۔۔بات تو تمہاری ٹھیک ہے لیکن یار  ۔۔۔۔ ہماری  کہانی  کو لکھے گا  کون؟ تو  زینی کہنے لگی ۔۔۔ باجی آپ   اتنی لائق ہو ۔سکول میں بچوں کو تقریریں اور مضامین  وغیرہ لکھ کر دیتی ہو۔۔ تو اپنی سیکس سٹوری کہ جس کے بارے میں آپ  ایک ایک بات کو  بڑی   تفصیل سے جانتی ہو۔کیوں نہ لکھ سکو گی؟ ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ میرے پاس آ کر کھڑی ہو گئی اور  کہنے لگی۔۔۔۔ اس لیئے باجی پلیززززززززززز ۔۔ تم بھی اپنی کہانی لکھو  نا۔۔۔۔۔۔۔۔ زینی کی بات سن کر  میں  سوچ  میں پڑ  گئی۔۔۔ اور کچھ  دن  رہ کر  میں  واپس اپنے سسرال  آ گئی۔۔۔ لیکن پتہ نہیں کیا بات ہے کہ ۔۔۔۔ زینی کی سٹوری والی بات میرے زہن سے چپک سی گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اس  لیئے  فارغ  وقت  میں۔۔۔۔ میں نے اپنی سٹوری لکھنے کی کوشش بھی کی لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  سچ کہہ رہی ہوں کہ  کوشش کے با وجود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس طرح میں چاہتی تھی ۔۔۔۔ اس طریقے سے  میں  کہانی کا ایک صفحہ بھی  نہ لکھ پائی۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔اور آکر تھک ہار کر مجھے یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ سکول کے بچوں کے لیئے تقریریں ۔۔۔۔اور مضامین  وغیرہ لکھنا  اور  بات  ہے  جبکہ  ۔۔۔ لوگوں  کے  لیئے   ایک  ہاٹ سی کہانی لکھنا دوسری بات۔


یہ فیصلہ کر کے میں  جب دوسری دفعہ گھر گئی تو  زینی کے پوچھنے پر میں نے اس کو ساری  صورتِ حال سے آگاہ کیا ۔۔۔اس پر انٹیلی  جنٹ  زینی کہنے لگی ۔۔۔  میرا ایک مشورہ ہے کہ اگر آپ   خود   اپنی  سٹوری  نہیں  لکھ سکتی  تو کیا ۔۔۔ہوا۔۔۔۔ کسی کو ہائیر کر لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے  کہا۔۔۔۔ او ہیلو ۔۔۔۔ تمہیں  پتہ  ہے کہ  تم  کیا کہہ رہی  ہو؟ تو  زینی سیریس ہو کر کہنی لگی۔۔۔۔ سچ  کہہ  رہی  ہوں  باجی۔۔۔پھر  اس  کے بعد اس نے مجھے مختلف  سٹوریوں کا  حوالہ  دیتے  ہوئے کہا کہ ۔۔ دیکھ لو با جی فلاں  سٹوری میں مصنف نہیں کہتا کہ یہ میرے ایک دوست کی سٹوری ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور  اس کے کہنے پر میں اس سٹوری کو لکھ رہا ہوں۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ زینی کی بات  نے  مجھے ایک نئی راہ سلجھائی تھی۔۔۔۔۔چنانچہ اب میں نے مختلف رائیٹرز سے رابطہ شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔ کسی نے لکنے کی  حامی بھری۔۔۔۔۔۔۔اور کسی نے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  کہانی لکھنے کے لیئے کوئی کچھ فرمائیش کرتا  اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی  کچھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخرِ کار   ایک مشہور  رائیٹر  نے   میری  سٹوری کو رومن   اردو میں لکھنے کی  ہامی بھری۔۔۔۔ اس کے لیئے میں نے اس کی ہر فرمائیش پوری کی  ۔۔۔ لیکن اس نے  میرے ساتھ دھوکا کیا اور چند ہی  قسطیں لکھ کر بھاگ گیا۔۔۔ اس  کو تلاش کرنے کی میں نے بڑی کوشش کی لیکن وہ  سین سے  ہی     غائب   ہو گیا—

Mami         Didi       Phopo


اسی دوران    میرا اس کہانی کے  رائیٹر  سے  رابطہ  ہو گیا ۔۔۔ان دنوں یہ موصوف ا پنی  ۔۔۔ تراس۔۔۔نامی سٹوری پر کام کر رہے تھے شروع شروع میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے  ان کی سٹوری کی خوب تعریف کی۔ پھر بعد میں ان سے فیس بُک پر بھی رابطہ شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب میں نے دیکھا کہ  رائیٹر صاحب میرے  کہے میں آ گئے ہیں  تو ۔۔۔ جیسے  ہی رائیٹر کی سٹوری تراس ختم   ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو   ایک دن میں نے اس سے اپنی سٹوری لکھنے کی ڈیمانڈ کر دی ۔۔اس وقت تک  رائیٹر میرے ساتھ اس قدر زیادہ انوالو  ۔۔۔۔ ہو چکا تھا کہ مجھ سے کہنے لگا ۔۔۔ کہ آج کل میں اپنی ایک اور سٹوری پہ کام کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد آپ کی سٹوری لکھ دوں گا ۔۔۔۔ لیکن میں نے رائیٹر پر اپنا  دباؤ  جاری رکھا ۔۔۔۔اور آخرِ کار اس  شریف آدمی نے  میری بات مان لی اور کہنے لگا کہ میں آپ کی سٹوری کو ہوُ بہُو    جیسا کہ  آپ چاہو گی لکھ دوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کے لیئے میری  ایک شرط ہے  اور  وہ  یہ کہ۔۔۔  یہ سٹوری  سنانے کے لیئے  آپ کو پنڈی/اسلام آباد آنا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

 رائیٹر کی  ڈیماند  سن رک میں سمجھ گئی تھی کہ موصوف  کہانی  سننے  کے بہانے مجھ  سے کیا  چاہتا  ہے؟ اور  ۔۔۔۔۔ جس چیز کی رائیٹر صاحب ڈیمانڈ  کر رہے تھے ۔۔۔۔۔وہ اگر مجھ  سے یہ ڈیماند   نہ بھی کرتے تو  میں نے ان کے ساتھ کم از کم  ایک دفعہ تو   سیکس کرنا  ہی کرنا تھا  ۔۔۔۔  کیونکہ موصوف میرے پسندیدہ رائیٹروں میں سے ایک تھا۔۔۔۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسلہ یہ تھا کہ میں لاہور  سے  تھوڑی  آگے  رہتی تھی اور   بظاہر میرا  پنڈی  اسلام آباد جانا   بہت مشکل  تھا۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔وہ  کہتے  ہیں  نا کہ جہاں  چاہ ۔۔۔۔۔۔ وہاں  راہ۔۔۔ تو ایک دن کی بات ہے کہ پرنسپل  صاحب  کے  کمرے   میں  میٹنگ  کے  دوران ۔۔۔ اچانک سر فہد  کہنے لگے۔۔۔۔۔ سر  جی   اس دفعہ بچوں کا ٹرپ کہا ں جا رہا ہے ۔۔۔؟  تو پرنسپل صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ کہاں جائیں ؟  ہمارے پاس آ جا کے لاہور ہی ہے جس کی ایک ایک چیز کو  ہمارے بچوں نے  کئی کئی مرتبہ دیکھا  ہوا  ہے۔۔۔ پرنسپل کی بات سن  کر  اچانک  ہی  میرے زہن میں ایک چھناکا  ہوا ۔۔۔ اور میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ سر اگر اجازت  ہو تو میں کچھ کہوں؟ تو پرنسپل نے  عینک کے اوپر سے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔۔۔۔مس صبو۔۔۔۔ پلیزززز۔۔ اس پر میں نے سب کی طرف  دیکھتے  ہوئے کہا کہ سر کیوں   نہ  ہم اس دفعہ  بچوں کو  اسلام آباد  لے چلیں ۔۔۔وہاں فیصل مسجد  کے ساتھ ساتھ  تحریکِ  پاکستان کے حوالے سے اسلام آباد میں  ایک یاد گار بھی بنائی  گئی ہے جسے   Islamabad Monument کہتے ہیں۔۔۔ میری بات سن کر پرنسپل صاحب  سوچ میں پڑ گئے اس پر میں  فہد صاحب کو کہنی  مار کر  آنکھوں  ہی آنکھوں میں باقی میل ٹیچر ز کو بھی  اشارہ کیا۔۔۔ اور  دوستو آپ  تو  جا نتے  ہی  ہو۔۔۔۔۔۔کہ ان آنکھوں کی مستی   سے جب ایک دفعہ کوئی  اشارہ  ہو جائے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا مجال ہے کہ کوئی اس سے انکار کر سکے۔۔۔ چنانچہ تھوڑے سے رد و قد کے  بعد    ایک ویک کے بعد۔۔۔۔ ہمارا ۔۔اسلام آباد جانے کا پروگرام بن گیا۔۔۔۔۔اور مسٹر فہد کو  اس بات کی ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ آگے کا بندوبست کریں۔۔۔۔۔۔

   آ خرِ کار وہ دن بھی آ گیا کہ  جس کا  مجھے اور رائیٹر صاحب کو شدت  سے  انتظار  تھا ۔۔۔۔۔ اس  دوران  میں  نے رائیٹر کے ساتھ سارے معاملات ڈسکس کر لیئے تھے۔۔۔۔۔ ۔۔ میل  ٹیچرز  کے  علاوہ   میری  ساتھی  ٹیچر حنا بھی ہمارے ساتھ  جا رہی تھی ۔۔    چنانچہ رائیٹر کے ساتھ طے شدہ   پروگرام کے مطابق   میں  نے  پہلے  ہی  اس بات کا اعلان کر رکھا تھا کہ میں نے فیصل مسجد نہیں جانا بلکہ مجھے اپنے ایک   عزیز سے ملنے  فیض آباد جانا ہے ۔۔ چنانچہ ۔۔۔  جیسے ہی ہماری  بس  فیض آباد پُل کے قریب پہنچی تو فہد صاحب نے بس کو رکوا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔ کہ  آپ کی واپسی کس وقت ہو گئی ؟۔۔۔۔۔۔۔تو میں نے کہا کہ   میں نے   اپنی رشتے دار  سے مل کر واپس آ جانا ہے۔۔۔اور پھر ان سے کہنے لگی کہ میں آپ کو فون کر دوں گی۔۔۔۔ اس کے  ساتھ ہی میں  بس سے نیچے اُتر آئی۔۔۔ اس وقت میری منزل ۔۔۔۔ فیض آباد  میں سکائی ویز کے اڈے پر راول ہوٹل تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس  کے  روم  نمبر  204 میں  اس کہانی  کا   رائیٹر  بیٹھا  میرا  انتظار  کر  رہا  تھا ۔۔ 




 راول ہوٹل پہنچ کر  ۔۔ میں نےریسپشن سے کمرہ نمبر 204  کا  پوچھا  اور پھر   سیڑھیاں  چڑھ کر متعلقہ  دروازے  کے  پاس پہنچ  گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  جیسے  ہی میں نے دروازے کے ہڈتھل پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا دل کن پٹیوں میں دھڑکنے لگا۔۔۔۔ اور میں سوچنے لگی ۔۔۔  کہ پتہ نہیں موصوف کیسا ہو؟  میرے ساتھ کیسا برتاؤ کرے ۔ ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے دروازے پر ہلکی سی دستک دے دی۔۔۔۔۔ اندر  سے  ایک  مردانہ  آواز سنائی  دی اندر   آجائیں صبو۔۔۔۔اور  میں  نے  دھڑکتے  دل کے  ساتھ  ہنڈیل  کو گھومایا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اندر داخل وہ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک   سادہ سا سنگل بیڈ  روم تھا ۔۔۔ جس کے ایک طرف دو کرسیاں اور سامنے ایک  میز رکھا   ہوا   تھا ۔۔۔  جبکہ  پلنگ  کے  سامنے  سنگھار  میز  بھی  پڑا  ہوا  تھا ۔۔۔اور  پلنگ پر ایک سفید رنگ کی چادر بچھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ کمرے کا جائزہ لینے کے بعد میں رائیٹر صاحب کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو   میرے  سامنے ایک  انتہائی  سادہ  اور  عاجز سا شخص  بیٹھا  تھا ۔۔۔۔۔۔ جس کو دیکھ کر کسی کو  اس بات کا یقین ہی  نہیں آتا ہو گا کہ یہ رائیٹر بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ اس لیئے میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور ۔۔اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ ہی مسٹر شاہ ہو؟ سٹوری رائیٹر۔۔۔۔ تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رائیٹر شائیٹر تو میں ہر گز نہیں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں سبھی  مجھے شاہ  کہتے  ہیں  اور پھر میرے ساتھ ہاتھ ملا کر  مجھے کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔۔۔۔ اور پھر  روم سروس کو ملاکر کہنے لگا۔۔۔ چائے یا ٹھنڈا ۔۔۔۔؟ تو  میں  نے چائے کے لیئے کہہ دیا۔۔۔۔۔۔



کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد۔۔۔ جب میں  اس کے ساتھ تھوڑی فری ہوگئی۔۔۔۔ تو   رائیٹر نے میری طرف دیکھا اور  پھر  پاس پڑا ہوا اپنا لیپ ٹاپ اُٹھا کر کہنے لگا۔۔۔ جی پلیززززززززز۔۔۔  ۔۔۔۔ اپنی سٹوری سنانا شروع کر دیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیٹ پر چونکہ لکھا جاتا ہے اور اس وقت بندہ سامنے بھی نہیں ہوتا ۔۔۔۔اس لیئے وہاں پر میں اسے بے دھڑک ہو کر لکھ دیتی تھی کہ ہاں میں نے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ سیکس کیا ہے۔۔۔ لیکن اب میں نے دیکھا کہ  سیم  یہی بات جوکہ میں نے اسے نیٹ پر کئی دفعہ  بتائی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے منہ پر بتاتے ہوئے میری زبان لڑ کھڑا  رہی تھی۔۔۔۔یہ صورتِ حال دیکھ کر  رائیٹر سمجھ گیا  کہ  میرے  ساتھ کیا مسلہ  ہے اس لیئے اس نے  ایک  دم  سے اپنا لیپ ٹاپ بند کر دیا۔۔۔۔ اور پھر  میری  طرف  دیکھتے  ہوئے  کہنے  لگا۔۔۔۔ چلیں پہلے کوئی اور بات کرتے ہیں ۔۔۔ پھر باتیں کرتے کرتے اچانک  ہی  وہ  کہنے  لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنی گرمی ہے  یہ اپنا برقعہ تو اتار دو۔۔۔۔۔ اور میں نے  اپنا برقعہ اتار دیا۔۔۔ اس کے بعد رائیٹر مجھ  سے اپنی آنے والی سٹوری کے بارے میں ڈسکس کرنے لگا۔۔ اور  باتوں  باتوں  میں   اس نے  جان بوجھ کر ایسے ایسے سیکسی  لفظ استعمال کرنا شروع ہو گیا۔۔۔۔ کہ جن کو سن کر۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے نپلز ۔۔۔ اکڑ گئے تھے۔۔۔۔ اور جب اس نے دیکھا کہ میدان پوری طرح گرم ہے   تو اچانک ہی رائیٹر نے اپنا لیپ ٹاپ دوبارہ سے اُٹھایا اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت آپ کے بھائی کا لن کتنا تھا ۔۔۔ کہ جب آپ نے اس کو اپنی  چوت میں لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  رائیٹر کی اس بات سے اچانک  ہی  میرے  اندر کی  شہوت   زادی چھلانگ لگا کر باہر آ گئی۔۔۔۔ اور میں نے رائیٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔  پہلی بار میں نےاپنے بھائی سے    چوت نہیں بلکہ اپنی گانڈ مروائی تھی۔۔۔۔۔


 میری بات سن کر رائیٹر  نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔۔۔۔اور مجھ سے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ یہ ہوئی نا بات ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی ہم دونوں کے بیچ جو کوئی دیوار باقی رہ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی گر گئی تھی ۔۔۔۔۔ اس طرح تقریباً ایک دو گھنٹے تک اس نے مجھ سے کرید کرید کو مختلف  سیکس  کی بیگ گروانڈ اور اس طرح کے متعدد سوالات  پوچھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جسے کا میں  اسے تفصیلی جواب دیتی رہی ۔۔۔۔ اور  کہیں  کہیں  میری بات سنتے ہوئے اچانک ہی رائیٹر ایک نعرہ مارتا اور کہتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ہے ۔۔اس کاروائی کی پینچ لائین ۔۔۔۔ جس کی مجھے تو  کچھ سمجھ نہیں آتی تھی۔۔۔۔۔لیکن  وہ  میرے منہ سے ایسی  بات  سنتے  ہی  فوراً  ہی  اسے اپنے لیپ ٹاپ پر محفوظ کر لیتا تھا۔۔۔۔۔ اس دوران سیکسی باتیں کر کر کے ہم  دونوں کے اندر اس قدر آگ جل رہی تھی  کہ اس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے بار بار میری نظر اس کی شلوار  کی طرف جاتی تھی جہاں پر  اس  کا کوبرا سانپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھن پھیلائے کھڑا تھا۔۔۔ لیکن کوشش کے باوجود بھی ۔۔ میں اس کے کوبرے کو نہ دیکھ سکی تھی کہ جس کو دیکھنے کی کم از کم مجھے بہت تمنا تھا ۔۔۔اس کی وجہ یہ تھی کہ   رائیٹر اپنی ہر سٹوری میں اس کی اتنی تعریف کرتا تھا کہ  نا چاہتے ہوئے بھی میں اس کے لن کی فین بن گئی تھی۔۔۔


 سوالوں  کا  جواب  دیتے  ہوئے  جب  مجھے   کافی  دیر  ہو  گئی ۔۔۔۔اور  میری  پھدی  تپ تپ کر تندور بن گئی تو میں نے  رائیٹر سے کہا ۔۔۔۔۔ سر جی ایک سوال میرا بھی ہے؟ تو میری بات سن کر وہ ایک دم چونک پڑا اور کہنے لگا۔۔۔۔ جی ارشاد ۔۔۔۔ تو میں نے اس سے  کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ  آپ  اپنی  ہرسٹوری  میں  اپنے  پپو (لن ) کی اتنی تعریف کیوں  کرتے ہو؟ تو میری  بات سن کر رائیٹر ہنس پڑا ۔۔۔۔۔ اور اپنی گود سے لیپ ٹاپ کو ہٹا کر بولا۔۔۔۔۔۔۔  بات دراصل یہ ہے صبو جی کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ میرے پاس کوئی بینک بیلنس ہے۔۔۔۔ نہ کوئی گاڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ کوئی بنگلہ۔۔۔بلکہ ایک پھٹیچر سا  موٹر سائیکل ہے  جو باوے آدم کے زمانے کا ہے ۔۔۔اور پھر کہنے لگا۔۔۔صبو جی ۔ میرے حلیئے سے آپ نے  میری حثیت کا  اندازہ کر ہی لیا ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اس کے ساتھ ہی وہ اپنی  کرسی سے اُٹھا اور دروازے کو   لاک کر کے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ایسی صورت میں مس صبو۔۔۔۔۔۔  میرے پاس  آ۔۔۔ جا ۔۔۔۔کے صرف  لن  ہی   بچتا  ہے ۔اب آپ اس  کا   جائزہ  لے کر بتائیں کہ میں سچ کہہ رہا ہوں کہ ۔۔۔جھوٹ؟؟؟؟؟؟؟؟


 اس کے ساتھ ہی رائیٹر نے اپنی شلوار کو نیچے کر دیا۔۔۔۔اور اپنے لن کو ننگا  کر  کے  میرے  سامنے کھڑا  ہو گیا۔۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔ میرے ہاتھ کو پکڑ کر کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ اس کو چیک کرکے بتاؤ کہ۔۔۔۔ میرا لن کیسا ہے؟۔۔۔ ادھر جیسے ہی اس کے ننگے  لن پر میری نظر پڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ سوچ کر میری چوت نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا ۔۔۔ کہ  جانے اس کا یہ لن کتنی پھدیوں میں گیا ہو گا۔۔۔ ادھر رائیٹر نے مجھے بازو سے پکڑا ۔۔۔۔۔اور  میرے  ہاتھ  میں لن  پکڑا کر  بولا۔۔۔  چیک اِٹ۔۔۔۔۔ اب میں نے اس کے موٹے لن کو  اپنے  ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور  اسے دباتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رائیٹر جی ۔۔۔۔ واقعہ ہی آپ کا لن کمال ہے۔۔۔ پھر میں نے اس  کے موٹے سے لن کے  ہیڈ پر زبان پھیری اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقین کرو رائیٹر ۔۔۔۔ میرے ان لبوں نے بھی بہت سے لنوں کو  چوما ہے ۔۔۔۔۔اور  ان ہونٹوں نے بہت  سے لنوں کو چوسا ہے۔۔۔ ۔۔۔۔ ان کو چاٹا ہے ۔۔۔ان سے میں بہت کھیلی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں موٹے بھی تھے  لمبے بھی ۔۔۔اور  ہر طرح کا لن میری پھدی اور گانڈ میں گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔یہ  کہہ کر میں نے تھوڑا  وقفہ لیا اور دوبارہ  سے اس کے لن  پر زبان پھیر کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   پتہ نہیں کیا بات ہے رائیٹر کہ تمہارے لن میں  ایک عجیب طرح کی کشش ۔۔۔۔اور مستی ہے اور اس جیسی مستی اور کشش میں نے بہت کم مردوں کے لن میں   دیکھی ہے۔۔۔


 اس کے ساتھ ہی میں اوپر اُٹھی اور رائیڑ کے ساتھ گلے لگ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔   جیسے ہی میں رائیٹر کے گلے لگی ۔۔۔۔اس نے اس نے اپنے  ہونٹوں کو میرے ہونٹوں پر رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور  انہیں چوم کر بولا۔۔۔۔۔  تمہارے لب بہت ریسلے اور نرم ہیں ۔۔۔۔۔ میں ان کو اور چوس لُوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں نے رائیٹر  کی طرف اپنا منہ بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔ رائیٹر جی میں شہوت ذادی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔  مجھ  سے  جو بھی  چاہیئے  بلا تکلف ۔۔۔ لے لو۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی زبان کو رائیٹر کے منہ میں دے دیا۔۔۔۔۔۔ جسے  وہ  بڑی گرم  جوشی  کے  ساتھ چوسنے لگا۔۔۔کچھ دیر  کسنگ کے بعد اس نے خود ہی میری قمیض کو اوپر اُٹھا دیا۔۔۔۔اور میری چھوٹی چھوٹی  چھاتیوں کی  طرف دیکھ کر  ۔۔ کہنے لگا۔۔۔۔۔۔  تمہارے کھڑے نپلز  بتا  رہے ہیں کہ تم  پر کس قدر شہوت سوار ہے ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس نے میرے نپلز کو اپنے منہ میں  لے لیا ۔۔۔اور ان کو چوسنے کے ساتھ ہی اس کو ایک ہاتھ نیچے میری پھدی کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اس نے میری شلوار کے اندر اپنا ہاتھ  لے گیا۔۔۔۔۔۔۔اور میری  پانی بھری چوت کو چھیڑنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی اس چھیڑ چھاڑ سے میں گرم سے گرم تر ہوتی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر  شہوت کے بے قابو ہو  کر میں نے  رائیٹر  کے  منہ  میں  دبے  ہوئے ۔۔۔اپنے نپل کو الگ کیا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کو لن سے پکڑ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس سے کہنے لگی۔۔۔ جلدی تو نہیں چھوٹو گے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تھوڑا سا لن چوس لوں۔؟ میری بات سن کر رائیڑ ہنس پڑا اور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹنے کی تم فکر نہ کرو ۔۔  اور جب تک تمہارا جی چاہے میرے لن کو چوستی رہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی  بات  سنتے  ہی  پہلے تو  میں نے اس کے  بڑے  سے لن پر  اوپر  سے  نیچے  تک اپنی  زبان پھیری ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ زبان میں نے اس انداز سے پھیری تھی ۔۔۔ کہ  رائیٹر نے ایک جھر جھری سی لی اور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔اُف۔۔۔۔۔صبو۔۔۔ واقعہ ہی تم شہوت زادی ہو۔۔ اور اس کے ساتھ ہی رائیٹر خود ہی آگے پیچھے ہو کر اپنے لن کو  میرے منہ میں  ان آؤٹ کرنے لگا۔۔۔۔۔



 ادھر رائیٹر کا لن چوستے ہوئے مجھ پر ایک عجیب سی خماری طاری ہو گئی تھی ۔۔۔اور  میری دو ٹانگوں کے بیچ والا  سوراخ  خود ہی  کھل بند ہو نے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ  دیکھ کر میں نے  اپنے منہ سے رائیٹرکا لن نکلا ۔۔اور   اپنی کرسی پر دونوں  گھٹنے رکھ کر  ۔اس کے  بازوں کو مضبوطی سے  پکڑ  لیا اور اپنی گانڈ کو باہر کی طرف نکال کر  کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  رائیٹر میری پھدی ماررررررررررررررررررررر۔۔   میری شہوت بھری بات کو سن کر رائیٹر آگے بڑھا میری باہر کی  طرف نکلی ہوئی گانڈ کو دیکھ کر اس کے منہ سے ایک سیٹی سی نکل گئی اور وہ میری گانڈ پر ہاتھ پھیرتا  ہوا  بولا ۔۔  کمال کی  گانڈ  ہے  تمہاری ۔۔۔۔اس کے  ساتھ  ہی  رائیٹر  نے اپنے  منہ  سے  زبان  نکالی  اور میری بڑی سی گانڈ پر  پھیرنے لگا۔۔۔   اپنی گانڈ  پر رائیڑ  کی زبان کا لمس پا کر میں تو جھلی  سی ہو گئی۔۔۔۔اور   کچھ  ہی  دیر بعد ۔۔۔ آہ  و سسکیوں میں چلاتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس کر دو۔۔۔ میری جان ۔۔ بس کر دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر رائیٹر نے میرے سوراخ سے اپنی زبان ہٹائی اور میری طرف دیکھ کر بولا۔۔۔۔۔۔۔۔ بس کردوں ؟   تو  میں  نے  اپنی   ہپس کو اس کی طرف لے جاتے  ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں بس کر دو۔۔۔  میری   بات سن کر  وہ  مزے لیتے  ہوئے  کہنے  لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس کر دوں تو پھر کیا کروں ؟  تو   اس پر میں نے اپنی گردن اس کی طرف گھومائی ۔۔۔۔اور بڑی ادا سے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس کر کے میری  پھدی مارو۔۔۔۔۔تو وہ شرارت سے بولا ۔۔۔ تمہاری پھدی کو میں کیوں ماروں ؟ تو میں نے مستی میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مجھے تمہارا لن چاہیئے  رائیٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی اور اسی وقت ۔۔۔۔۔  جلدی سے پلیززززز ۔۔۔۔۔۔۔۔ اندر ڈال دو۔۔۔ میری  بات  سنتے  ہی  رائیٹر  اپنی  جگہ  سے  اُٹھا  اور اس   نے مجھے کرسی سے اُٹھا  بیڈ پر گھوڑی  بننے کو کہا۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر  جیسے ہی میں اس کے کہنے کے مطابق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیڈ پر گھوڑی بنی تو اس  کے  ساتھ  ہی رائیٹر  کا  سنسناتا  ہوا  لن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری چوت میں  گھس گیا۔۔۔۔۔۔


 اور پھر  رائیٹر نے میری چوت کو  مارنا شروع  کر دیا۔۔۔ وہ   کافی دیر تک وہ میری چوت کو مارتا رہا ۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔۔ کیا خیال ہے تھوڑی سی  بنڈ  نہ مار  لوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور  پھر  میرے  جواب کا  انتظار  کیئے  بغیر  ہی  اس  نے بہت سا تھوک میری گانڈ پر لگایا اور کچھ تھوک کو اپنے لن پر لگا کر   میری گانڈ کے سوراخ پر رکھ دیا۔۔۔۔ اور پھر اس سے قبل کہ میں کچھ کہتی اس نے ایک جھٹکے سے اپنے سارے لن کو میری گانڈ میں گھسا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اس کے لن کا میری گانڈ میں جانے کی دیری  تھی کہ مجھے ایسا لگا کہ مزے کا ایک طوفان میرے اندر داخل ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ اور میں اس کے  مست گھسوں کی تاب نہ لا کر  خود ہی اپنی  ہپس کو آگے پیچھے کرنے لگی۔۔۔۔۔ گھسے مارتے ہوئے کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔۔۔ جب وہ چھوٹنے  کے قریب آ گیا تو اس نے جلدی سے اپنے لن کو  میری  گانڈ  سے  نکالا  اور  پھر  میری چوت میں گھسا دیا۔۔۔۔ اور ایک طرح سے اس نے یہ اچھا  ہی کیا ۔۔۔۔۔  کیونکہ اس وقت میری چوت کی دیواریں اس کے لن کو اپنے اندر لینے کے لیئے ۔۔۔۔ مچلی جا رہیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   دوسری طرف میری چوت میں لن ڈالتے  ہی  اس نے  طوفانی  قسم  کے گھسے  مارنے شروع کر دیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے  لن سے پانی نکل نکل کر میری چوت کو بھرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اس  دن  رائیٹر  نے  میرے ساتھ  دو  تین  ٹرپ لگائے  اور   مجھے  چود چود کر  اتنا  زیادہ      شانت کر دیا کہ ۔۔۔۔۔۔ خماری کے مارے ۔۔۔ میری آنکھ نہیں کھل  رہی تھی ۔۔۔اس  لیئے  میں  پلنگ  پر  ہی  اس  کے  بازوؤں میں جھول گئی۔۔۔۔۔پھر کوئی آدھے پونے گھنٹے کے بعد رائیٹر نے مجھے جگایا ۔۔اور میں اس کے ساتھ جپھی لگا کر  واپس اپنی بس  کی طرف چل دی۔۔۔۔ 


اس کے بعد  بھی میں نے  مختلف لوگوں اور  خاص کر بچوں کی ممیوں اور ڈیدیز  کے ساتھ   کافی سارے سیکس کیئے ہیں  ۔۔  لیکن معاہدے کے مطابق   اپنی  یہ کہانی  یہیں  تک لکھی جانی  تھی ۔۔۔ اس  لیئے   اب  میں بڑی سیریس ہو کر  سوچ رہی ہوں کہ  کیوں  نا ۔۔۔اس کہانی کا پارٹ ٹو لکھوانے کے لیئے  میں   ایک  اور چکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روال ہوٹل فیض آباد  کا  لگا  لوں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔آپ  کیا  کہتے  ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟



......................... ختم شُد....................